122 شہیدوں نے اس قوم کو ایسے وقت میں یکجا کر دیا جب ہر ایک نے "اپنی
ڈیڑھ اینٹ کی مسجد" بنا رکھی تھی۔ 16دسمبر کے دن بظاہر ایک لمحے کو محسوس
ہوا کہ پورے وطن نے سرخ چادر اوڑھ لی ہے۔ ہر طرف خوف کا سایہ ، سراسیمگی،
لہو میں لتھڑے یونیفارم، پھٹے جوتے، بکھری کتابیں۔لیکن جس طرح قوم نے سانحہ
پشاور کے بعد پہلی برسی کا دن منایا اس سے پوری دنیا کو پیغام گیا کہ
شہیدوں نے یوم سوگ کو یوم عزم سے تعبیر کر دیا ہے۔ اور پوری قوم نے 16
دسمبر کان شہیدوں کو خراج پیش کر کے گزارا۔ ان کا شکریہ ادا کر کے گزارا کہ
انہوں نے ایک بکھری قوم کو یکجا کر دیا۔
ولید گلزار کو آٹھ گولیاں لگیں۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ایک کمرے میں لے گیا اور انہیں خاموش رہنے کی تلقین کرنے لگا اسی اثناء میں ایک دہشت گرد کمرے میں داخل ہوا۔ کچھ دیر بعد ہی دوسرا دہشت گرد بھی وہیں آیا۔ وہ اندھا دھند فائرنگ کرنے لگے ۔ دوسرا آنے والا دہشت گرد کرسیوں کے نیچے چھپنے والے نونہالوں کے سروں میں گولیا ں مارنے لگا۔ ولید کو 8 گولیاں لگیں اور ایک موقع پر اس نے کلمہ شہادت بھی پڑھ لیا پھر دہشت گرد سب کو بے جاں سمجھ کے چلے گئے۔ وہ گرتا پڑتا کسی نہ کسی طرح باہر پہنچا اور بے سدھ ہو گیا اسے ہسپتال لے جایا گیا۔ لیکن اس کی حالت دیکھتے ہوئے اسے شہید بچوں کے ساتھ شامل کر دیا گیا۔ اچانک ایک نرس کی نظر اس کے ہلتے ہوئے ہاتھ پہ پڑی تو فوراً آپریشن تھیٹر میں لے جانے کی وجہ سے جان بچ پائی اور بعد ازاں برمنگھم کے اسی ہسپتال میں پاک فوج نے اس کا علاج کروایا جہاں ملالہ کا علاج ہوا۔
آج جبڑے سے محروم ، چہرے کی بدلی ہوئی ساخت لیے ہوئے اس بچے کا عزم پاک فوج میں جا کر دہشت پسند عناصر کا مقابلہ کرنے کا ہے۔یہ بچہ جب اپنا ادھورا وجود لے کر ایک مکمل قوم کی تشکیل کر رہا ہے تو ہم کیوں گزرے لمحوں کا ماتم کرتے ہوئے اس کے عزم میں رکاوٹ بنیں۔ اس نے پاکستانی قوم کے ذہنوں سے یہی 16 دسمبر کا دن لیکن سال 1971 کسی حد تک محو کر دیا ہے۔ اور دنیا نے دیکھا کہ پاکستانی قوم نے 16دسمبر کو یوم عزم کے طور پہ منایا ۔ اور ایک عجیب ولولہ سا دیکھنے کو ملا۔ سانحہ پشاور کے 122 نونہالوں سمیت تمام شہداء نے جو قربانی دی اس کے اثرات یقیناًدور رس ہیں۔ انہوں نے اس قوم کی تاریخ میں سے ایک سیادہ دن کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ان بچوں اور ان کے اساتذہ نے پاکستان کی تاریخ کے ایک سیادہ دن کو اپنے خون سے دھو ڈالا ہے۔ آج قوم افسردگی کے بجائے ایک عزم کو دوہرا رہی ہے۔ اور یقیناًشہدائے پشاور جنت الفردوس سے مسکراتے ہوئے اس حقیقت کا نظارہ کر رہے ہوں گے کہ جو کام سیاستدانوں کی کئی نسلیں نہ کر پائیں وہ ان شہداء کی قربانی نے کر دیا۔ انہوں نے کم و بیش 20 کروڑ کے جمگھٹے کو ایک قوم بنا دیا۔
شاید میرے عزیز و دوست مجھ سے اختلاف کریں لیکن میں نے اس دن کو یوم سوگ کے طور پہ نہیں منایا۔ بلکہ اس دن کو یوم تشکر کے طور پہ منایا ۔ ان شہیدوں کا شکریہ جنہوں نے ایک لڑکھڑاتی ہوئی قوم کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کر دیا۔ شہدائے پشاور کا شکریہ کہ انہوں نے ایسی قربانی پیش کی جو آنے والی نسلوں کے اچھے مستقبل کی امین بن چکی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ میں ان ماؤں کے دکھ کی رمق بھی نہیں پا سکتا جس نے اپنے لال کو اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے شہادت کا رتبہ پانے کے لیے بھیجا۔ میں کبھی بھی اس بھائی کے دکھ کو نہیں جان پاؤں گا جس نے اپنے شرارتی بھائی کو سکول سے واپسی پہ کان کھینچنے کی فرضی دھمکی دی ہو گی ۔ میں کیسے اس قابل ہو سکتا ہوں کہ اس بہن کے آنسو ؤں کو سمجھ پاؤں جس کا بھائی چھوٹی عمر میں ہی اس کو بڑے خواب دکھاتا تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود میں مایوس نہیں ہوں۔ نہ ہی میں اپنے آنسوؤں کو منظر دھندلانے دے سکتا ہوں۔ بلکہ میرے آنسو مجھے ایک شفاف اور واضح سمت دکھا رہے ہیں۔
ملک زمرد ایک نہایت جوشیلے بزرگ ہیں۔ ان کا جذبہ ہم جوانوں سے بھی بڑھ کر ہے۔ وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ اس دھرتی کے سینے سے ہی نگینے ابھرتے ہیں۔ وہ جوش خطابت میں اکثر وہ الفاظ بھی کہہ جاتے ہیں جس سے ان کے اقارب ان سے ناراض بھی ہو جاتے ہیں۔ وہ تبدیلی کے نعرے لگانے والے سے زیادہ تبدیلی کا باعث بننے والوں کو ہیرو مانتے ہیں۔ اکثر لوگ ان کے خیالات کو ذہنی خلل قرار دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ذہنی خلل والے محب وطن جوشیلوں کو اس دھرتی میں پاگل سمجھ لیا گیا تب ہی تو ہماری تاریخ نے 16دسمبر1971کا سیاہ ترین دن دیکھا۔ ہم نے 167 نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی کو 88نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی کے زیر کرنا چاہا اس کشمکش میں ملک تڑوا بیٹھے۔ لیکن سدھرے نہیں ۔ اور کچھ بعید نہیں تھا کہ سانحہ مشرقی پاکستانی ہماری آنے والی نسلوں کی رگوں میں شرمندگی بن کر بہتا لیکن پشاور کے ننھے شہداء نے اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر اس قوم کو ایک نئی جلا بخشی ہے۔ ہم شکر گزار ہیں ولید و احمد کے تمام ساتھیوں کے جنہوں نے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کر کے اس قوم کی تاریخ میں شامل ایک سیاہ باب کو سرخ کردیا۔ اور وہ وقت بھی آئے گا جب اس سرخی کو امن کی سفیدی میں بدلا جائے گا۔ ہم شکر گزار ہیں طاہرہ قاضی کے جنہوں نے اس دھرتی کے سینے سے کسی حد تک شرمندگی کے دن کو یوم عزم میں بدل دیا ، اپنی جان کی قربانی پیش کر کے۔ میں شکر گزار ہوں اس خاندان کا جس نے شامویل طارق اور ننگیال طارق جیسے دو فرزند اس دھرتی پہ قربان کر کے اس دشمن کے منہ پر طمانچہ مارا جس نے 71ء میں دو لخت کرتے وقت سوچا تھا کہ یہ قوم کبھی اٹھ نہیں پائے گی ۔ اور ان کی ماں کے بہتے آنسوؤں نے اس دھرتی کے سینے سے ایک ایسا داغ دھونے میں اپنا حصہ ڈالا ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی ایک بوجھ سا بن چکا تھا۔ میں شکر گزار ہوں اس بہن کا جو اپنے بھائیوں کے لیے تنہائی میں اب بھی سسکیاں بہاتی ہے۔ اس کی سسکیوں کے سبب نے اس قوم کے گریباں سے ہاتھ چھڑا کر ہاتھوں میں ہاتھ دے دیے۔ میں شکر گزار ہوں سانحہ ء پشاور کے شہدا ء کا جن کی قربانی سے دشمن یہ تو جان گیا کہ اس قوم کے بچے بھی جذبہ ء اصغر ؑ رکھتے ہیں۔ میں شکر گزار ہوں سانحہء پشاور کے زخمیوں کا جن کے لبوں پہ آج بھی دشمن سے مقابلہ کرنے کا عزم ہے۔
نونہالانِ وطن نے تو اپنے لہو سے اس دھرتی کی آبیاری ایسے کر دی ہے کہ سیاہ ترین دن کو یوم عزم میں بدل ڈالا ہے۔ اور ساتھ ہی اس ملک کے صاحبانِ اقتدار کے لیے ایک لمحہ فکریہ بھی بنا دیا ہے جو آج بھی اپنی سمت کا تعین کرنے میں گو مگو کی سی کیفیت کا شکار ہیں۔ شہیدانِ پاک وطن کے کردار تختہ دار پہ لٹک چکے ہیں۔ لیکن مملکت خداداد کو دو لخت کرنے کا باعث کرنے والے عناصر آج بھی پوشیدہ ہیں۔ وہ آج بھی اس دھرتی کے سینے پہ کھڑے ہو کر شاید ہمیں للکارتے ہیں۔ وفاق کی سلامتی کے داعی نہ جانے کیوں 71 ء میں یہ نعرہ بھول گئے۔ یا ان کے مفادات نے ان کی عقل پہ پردہ ڈال دیا تھا۔
جس طرح ہر پاکستان سانحہ ء پشاور کے ہر شہید کا شکر گزار ہے کہ اس نے قوم کو سانحہ مشرقی پاکستان کے دن کو یوم سیاہ سے یوم عزم میں بدل ڈالا ۔ اسی طرح جب سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمہ دار عناصر اگر قوم کے سامنے آ گئے تو پوری قوم ان عناصر کو سامنے والوں کی بھی شکرگزار رہے گی ۔
facebook.com/kazmicolumnist
twitter@ sakmashadi
ولید گلزار کو آٹھ گولیاں لگیں۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ایک کمرے میں لے گیا اور انہیں خاموش رہنے کی تلقین کرنے لگا اسی اثناء میں ایک دہشت گرد کمرے میں داخل ہوا۔ کچھ دیر بعد ہی دوسرا دہشت گرد بھی وہیں آیا۔ وہ اندھا دھند فائرنگ کرنے لگے ۔ دوسرا آنے والا دہشت گرد کرسیوں کے نیچے چھپنے والے نونہالوں کے سروں میں گولیا ں مارنے لگا۔ ولید کو 8 گولیاں لگیں اور ایک موقع پر اس نے کلمہ شہادت بھی پڑھ لیا پھر دہشت گرد سب کو بے جاں سمجھ کے چلے گئے۔ وہ گرتا پڑتا کسی نہ کسی طرح باہر پہنچا اور بے سدھ ہو گیا اسے ہسپتال لے جایا گیا۔ لیکن اس کی حالت دیکھتے ہوئے اسے شہید بچوں کے ساتھ شامل کر دیا گیا۔ اچانک ایک نرس کی نظر اس کے ہلتے ہوئے ہاتھ پہ پڑی تو فوراً آپریشن تھیٹر میں لے جانے کی وجہ سے جان بچ پائی اور بعد ازاں برمنگھم کے اسی ہسپتال میں پاک فوج نے اس کا علاج کروایا جہاں ملالہ کا علاج ہوا۔
آج جبڑے سے محروم ، چہرے کی بدلی ہوئی ساخت لیے ہوئے اس بچے کا عزم پاک فوج میں جا کر دہشت پسند عناصر کا مقابلہ کرنے کا ہے۔یہ بچہ جب اپنا ادھورا وجود لے کر ایک مکمل قوم کی تشکیل کر رہا ہے تو ہم کیوں گزرے لمحوں کا ماتم کرتے ہوئے اس کے عزم میں رکاوٹ بنیں۔ اس نے پاکستانی قوم کے ذہنوں سے یہی 16 دسمبر کا دن لیکن سال 1971 کسی حد تک محو کر دیا ہے۔ اور دنیا نے دیکھا کہ پاکستانی قوم نے 16دسمبر کو یوم عزم کے طور پہ منایا ۔ اور ایک عجیب ولولہ سا دیکھنے کو ملا۔ سانحہ پشاور کے 122 نونہالوں سمیت تمام شہداء نے جو قربانی دی اس کے اثرات یقیناًدور رس ہیں۔ انہوں نے اس قوم کی تاریخ میں سے ایک سیادہ دن کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ان بچوں اور ان کے اساتذہ نے پاکستان کی تاریخ کے ایک سیادہ دن کو اپنے خون سے دھو ڈالا ہے۔ آج قوم افسردگی کے بجائے ایک عزم کو دوہرا رہی ہے۔ اور یقیناًشہدائے پشاور جنت الفردوس سے مسکراتے ہوئے اس حقیقت کا نظارہ کر رہے ہوں گے کہ جو کام سیاستدانوں کی کئی نسلیں نہ کر پائیں وہ ان شہداء کی قربانی نے کر دیا۔ انہوں نے کم و بیش 20 کروڑ کے جمگھٹے کو ایک قوم بنا دیا۔
شاید میرے عزیز و دوست مجھ سے اختلاف کریں لیکن میں نے اس دن کو یوم سوگ کے طور پہ نہیں منایا۔ بلکہ اس دن کو یوم تشکر کے طور پہ منایا ۔ ان شہیدوں کا شکریہ جنہوں نے ایک لڑکھڑاتی ہوئی قوم کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کر دیا۔ شہدائے پشاور کا شکریہ کہ انہوں نے ایسی قربانی پیش کی جو آنے والی نسلوں کے اچھے مستقبل کی امین بن چکی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ میں ان ماؤں کے دکھ کی رمق بھی نہیں پا سکتا جس نے اپنے لال کو اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے شہادت کا رتبہ پانے کے لیے بھیجا۔ میں کبھی بھی اس بھائی کے دکھ کو نہیں جان پاؤں گا جس نے اپنے شرارتی بھائی کو سکول سے واپسی پہ کان کھینچنے کی فرضی دھمکی دی ہو گی ۔ میں کیسے اس قابل ہو سکتا ہوں کہ اس بہن کے آنسو ؤں کو سمجھ پاؤں جس کا بھائی چھوٹی عمر میں ہی اس کو بڑے خواب دکھاتا تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود میں مایوس نہیں ہوں۔ نہ ہی میں اپنے آنسوؤں کو منظر دھندلانے دے سکتا ہوں۔ بلکہ میرے آنسو مجھے ایک شفاف اور واضح سمت دکھا رہے ہیں۔
ملک زمرد ایک نہایت جوشیلے بزرگ ہیں۔ ان کا جذبہ ہم جوانوں سے بھی بڑھ کر ہے۔ وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ اس دھرتی کے سینے سے ہی نگینے ابھرتے ہیں۔ وہ جوش خطابت میں اکثر وہ الفاظ بھی کہہ جاتے ہیں جس سے ان کے اقارب ان سے ناراض بھی ہو جاتے ہیں۔ وہ تبدیلی کے نعرے لگانے والے سے زیادہ تبدیلی کا باعث بننے والوں کو ہیرو مانتے ہیں۔ اکثر لوگ ان کے خیالات کو ذہنی خلل قرار دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ذہنی خلل والے محب وطن جوشیلوں کو اس دھرتی میں پاگل سمجھ لیا گیا تب ہی تو ہماری تاریخ نے 16دسمبر1971کا سیاہ ترین دن دیکھا۔ ہم نے 167 نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی کو 88نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی کے زیر کرنا چاہا اس کشمکش میں ملک تڑوا بیٹھے۔ لیکن سدھرے نہیں ۔ اور کچھ بعید نہیں تھا کہ سانحہ مشرقی پاکستانی ہماری آنے والی نسلوں کی رگوں میں شرمندگی بن کر بہتا لیکن پشاور کے ننھے شہداء نے اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر اس قوم کو ایک نئی جلا بخشی ہے۔ ہم شکر گزار ہیں ولید و احمد کے تمام ساتھیوں کے جنہوں نے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کر کے اس قوم کی تاریخ میں شامل ایک سیاہ باب کو سرخ کردیا۔ اور وہ وقت بھی آئے گا جب اس سرخی کو امن کی سفیدی میں بدلا جائے گا۔ ہم شکر گزار ہیں طاہرہ قاضی کے جنہوں نے اس دھرتی کے سینے سے کسی حد تک شرمندگی کے دن کو یوم عزم میں بدل دیا ، اپنی جان کی قربانی پیش کر کے۔ میں شکر گزار ہوں اس خاندان کا جس نے شامویل طارق اور ننگیال طارق جیسے دو فرزند اس دھرتی پہ قربان کر کے اس دشمن کے منہ پر طمانچہ مارا جس نے 71ء میں دو لخت کرتے وقت سوچا تھا کہ یہ قوم کبھی اٹھ نہیں پائے گی ۔ اور ان کی ماں کے بہتے آنسوؤں نے اس دھرتی کے سینے سے ایک ایسا داغ دھونے میں اپنا حصہ ڈالا ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی ایک بوجھ سا بن چکا تھا۔ میں شکر گزار ہوں اس بہن کا جو اپنے بھائیوں کے لیے تنہائی میں اب بھی سسکیاں بہاتی ہے۔ اس کی سسکیوں کے سبب نے اس قوم کے گریباں سے ہاتھ چھڑا کر ہاتھوں میں ہاتھ دے دیے۔ میں شکر گزار ہوں سانحہ ء پشاور کے شہدا ء کا جن کی قربانی سے دشمن یہ تو جان گیا کہ اس قوم کے بچے بھی جذبہ ء اصغر ؑ رکھتے ہیں۔ میں شکر گزار ہوں سانحہء پشاور کے زخمیوں کا جن کے لبوں پہ آج بھی دشمن سے مقابلہ کرنے کا عزم ہے۔
نونہالانِ وطن نے تو اپنے لہو سے اس دھرتی کی آبیاری ایسے کر دی ہے کہ سیاہ ترین دن کو یوم عزم میں بدل ڈالا ہے۔ اور ساتھ ہی اس ملک کے صاحبانِ اقتدار کے لیے ایک لمحہ فکریہ بھی بنا دیا ہے جو آج بھی اپنی سمت کا تعین کرنے میں گو مگو کی سی کیفیت کا شکار ہیں۔ شہیدانِ پاک وطن کے کردار تختہ دار پہ لٹک چکے ہیں۔ لیکن مملکت خداداد کو دو لخت کرنے کا باعث کرنے والے عناصر آج بھی پوشیدہ ہیں۔ وہ آج بھی اس دھرتی کے سینے پہ کھڑے ہو کر شاید ہمیں للکارتے ہیں۔ وفاق کی سلامتی کے داعی نہ جانے کیوں 71 ء میں یہ نعرہ بھول گئے۔ یا ان کے مفادات نے ان کی عقل پہ پردہ ڈال دیا تھا۔
جس طرح ہر پاکستان سانحہ ء پشاور کے ہر شہید کا شکر گزار ہے کہ اس نے قوم کو سانحہ مشرقی پاکستان کے دن کو یوم سیاہ سے یوم عزم میں بدل ڈالا ۔ اسی طرح جب سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمہ دار عناصر اگر قوم کے سامنے آ گئے تو پوری قوم ان عناصر کو سامنے والوں کی بھی شکرگزار رہے گی ۔
facebook.com/kazmicolumnist
twitter@ sakmashadi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں