جمعرات، 17 دسمبر، 2015

اتحاد۔۔ مگر متنازعہ


34 اسلامی ممالک دہشت گردی کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے ایک اتحاد قائم کرنے جا رہے ہیں۔ اس اتحاد کا مرکز ریاض کو چنا گیا ہے اور سعودی عرب کو اس اتحاد کی سربراہی دی گئی ہے (کیایہ سربراہی اپنے لیے سعودی عرب نے خود چنی ہے؟ )اس اتحاد کے اہم ممالک میں سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، پاکستان ، ترکی اور مصر شامل ہیں۔ ایک دلچپ پہلو یہ ہے کہ اس اتحاد کو نام اسلامی ممالک کا(نمائندہ) اتحاد دیا گیا ہے لیکن اس اتحاد کے قیام کے ساتھ ہی یہ تاثر قائم ہونا شروع ہو گیا ہے کہ یہ ایک فقہی اتحاد میں تبدیل نہ ہو جائے۔ کیو ں کہ اس اتحاد میں جہاں ایران کو نظر انداز کیا گیا ہے وہیں پر ایرانی اثر والے ممالک کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اور حیران کن طور پر اتحاد کے قیام کا مقصد ان علاقوں میں دہشت پسند عناصر کا قلع قمع قرار دیا گیا ہے جہاں ایران کا عمل دخل ہے۔ اب یہ تو وقت ہی ثابت کرئے گا کہ یہ خدشات درست ہیں یا نہیں۔
مسلمان اس وقت پوری دنیا میں آبادی کے کل فیصد میں سے کم و بیش60 سے 65فیصد ہیں(یہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہے)۔ خطہ ء عرب جو اس اتحاد کی سربراہی کے لیے آگے بڑھا ہے وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی کم و بیش20سے22 فیصد نمائندگی رکھتا ہے۔ جس میں تمام خلیجی ممالک شامل ہیں۔آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مسلمان ملک انڈونیشیا ہے جہاں پوری دنیا کے کم و بیش 12سے 13فیصد مسلمان بستے ہیں۔ لیکن حیران کن طور پر مسلم دنیا کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک اس اتحاد میں ابھی تک شامل نہیں ہے۔ پاکستان مسلم آبادی کا پوری دنیا کے حوالے سے کم وبیش11سے 12فیصد کا حصے دار ہے۔ اور یہ واحدایٹمی اسلامی ملک ہونے کے حوالے سے اس اتحاد میں شامل اہم ترین ملک بھی ہے۔ لیکن اس حوالے سے بھی صورت حال انتہائی دلچسپ ہے۔ پاکستان کو اس سے پہلے یمن تنازعے میں شمولیت کے حوالے سے ملکی سطح پر سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کی وجہ سے حکومت وقت کی خواہش کے باوجود پاکستان اس تنازعے میں براہ راست شامل نہیں ہو پایا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ قرار پائی کہ اس تنازعے کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا تھا۔ اور یہ دو ملکوں کے بجائے دو مختلف سوچ رکھنے والے نظریات کے مابین تنازعہ بن گیا تھا۔ اور پاکستان ایک طویل عرصے سے فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں ہے۔ لہذا اگر یہ اتحاد تمام مسلم ممالک کی نمائندگی کرنے کے بجائے خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر کو ختم کرنے کے لیے ہی کام کرتا ہے تو پھر دیکھنا پڑئے گا کہ پاکستان اس اتحاد میں اپنا وجود کب تک قائم رکھ پاتا ہے۔
ترکی اس اتحاد میں شامل واحد نیٹو ملک ہے۔ حالیہ کچھ دنوں میں ترکی اور روس کی کشمکش نے ماحول تلخ بنا رکھا ہے ۔ دلچسپی کا پہلو یہ ہے کہ روس اور ایران مل کر شام میں دہشت گردوں کو کچلنے میں مصروف ہیں۔ جب کہ ترکی اپنے حمایت یافتہ باغیوں کے خلاف روسی کاروائیوں کی وجہ سے پہلے ہی زچ ہوا بیٹھا ہے۔ اس حوالے سے کچھ بعید نہیں کہ ترکی کی اس اتحاد میں شمولیت ایک طرف اپنے وقار کی بحالی ہو اور دوسری طرف شام میں اپنے مفادات کا تحفظ بھی۔مصر میں سعودی عرب و امریکہ دونوں ہی ایک آمرانہ حکومت کا تحفظ کر رہے ہیں۔ مرسی کو خوش آمدید کہنے والے ممالک اور سکالرز السیسی کی حمایت کرنے پر سعودی عرب کے کردار پہ انگلی اٹھانے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ مصر یقیناًاس اتحاد میں پاکستان اور ترکی کے بعد اہم ملک ہے۔ مصر کی شمولیت ایک اور لحاظ سے بھی اہم ہے کہ سعودی عرب نے مصر کو پانچ سال کے لیے ایندھن فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے(اور شنید ہے کہ مفت ہی)۔ اندرون خانہ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ عبدالفتاح السیسی نے سعودی عرب کی طرف سے سہولت نہ دینے پر ایران سے رجوع کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اور سعودی عرب ایرانی مداخلت سے پہلے ہی تنگ ہے۔ لہذا نہ صرف پانچ سالہ ایندھن پروگرام بلکہ سعودی عرب مصر میں سرمایہ کاری کو 30ارب ریال تک کرنے کا خواہش مند بھی ہے۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ 57 اسلامی ممالک کا اتحاد (OIC) کا ہونے کے باوجود ایک ایسا نیا اتحاد تشکیل دیا جا رہا ہے جو واضح طور پر ایک مخصوص سوچ کی نمائندگی کی طرف رجحان رکھتا ہے۔ عرصہ دراز سے لکھا جا رہا ہے اور مباحثہ جاری ہے کہ 57 ممالک کی اسلامی تعاون کی تنظیم کا ایک مشترکہ لائحہ عمل ہونا چاہیے۔ لیکن اس کی طرف توجہ نہیں دی گئی ۔ اور اب جب اپنے مفادات پر ضرب لگی تو ایک ایسا اتحاد قائم کر دیا گیا جو اسلامی دنیا میں تنازعات کو حل کرنے کے بجائے ہوا دے گا۔ مالی، چاڈ ، سوڈان، صومالیہ، نائیجیر، نائیجیریا، ٹوگو، جبوتی، سینیگال، موریطانیہ وغیرہ جیسے کئی افریقی ممالک کو اس اتحاد میں شامل کیا گیا ہے جو شدید انتشار کا شکار ہیں۔ اور انہیں اتحاد میں شامل کرنے کا ایک پہلو انہیں اپنے اثر میں کرنا بھی سمجھا جا رہا ہے۔ اگر تو اس اتحاد کے اولین مقاصد میں ان افریقی ممالک میں استحکام کو ترجیح دی گئی تو پھر یقیناًکہا جا سکتا ہے کہ یہ اتحاد مضبوط بنیادوں پر استوار ہو گا۔ لیکن اگر اس اتحاد کا مقصد شام و عراق میں اپنی حمایت یافتہ حکومت کا قیام اور یمن میں رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنا ہی رہا تو پھر اس اتحاد کا مستبقل غیر یقینی ہو جائے گا۔
بظاہر یہ اتحاد ایران کی مداخلت سے نمٹنے کے لیے قائم کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک اس معاملے پر ایک دوراہے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عراق و شام میں کاروائیاں ہی اولین مقصد ہیں(جیسا سعودی نائب ولی عہد اور وزیر دفاع) نے کہا ہے تو پھر یہ اتحاد ایران کے مفادات پر ضرب لگانے کے حوالے سے اپنی شناخت بنا لے گا۔ جو پاکستان کے لیے ایران کے ہمسائے کے طور پر یقیناًایک مشکل صورت حال ہو گی ۔ اور توانائی منصوبے بھی کھٹائی میں پڑ سکتے ہیں۔ فواز گرجس (Fawaz Gerges) جو لندن اسکول آف اکنامکس میں مشرق وسطیٰ کے مطالعے کے شعبہ کے پروفیسر ہیں، کے مطابق خلیجی ممالک و سعودی عرب سے زیادہ خطرہ تو اس وقت داعش سے ایران کو ہے لیکن ایران کو اس اتحاد میں نہ شامل کیا گیا نہ مستقبل میں شمولیت کا کوئی عندیہ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حیران کن طور پر جنگ زدہ ممالک شام و عراق کو صرف اس وجہ سے نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ وہاں ایران نواز حکومتیں ہیں۔ جب کہ کاروائیوں کا مرکز یہی دو ممالک قرار دیے گئے ہیں۔ اور عمان جو یمن تنازعے کے علاوہ امریکی و سعودی اتحاد سے غیر جانبدار رہا ہے اس کو بھی اس اتحاد میں شامل نہیں کیا گیا۔ یعنی یہ تاثر دیا گیا جو سعودی عرب کا حامی ہے یا اس کے ساتھ ہے وہ اس اتحاد میں بھی شامل ہے اور جو مخالف ہے اس کا اس اتحاد سے کوئی واسطہ نہیں پھر کیسے اس اتحاد کو اسلامی دنیا کا اتحاد گردانا جا سکتا ہے۔
بہر حال اس اتحاد کے حوالے سے اہم امر یہ بھی ہے کہ مستقبل میں شائد فلسطینی متنازعہ علاقوں میں کوئی مشترکہ کاروائی دیکھنے کو ملے ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے یہ اتحاد صومالی قزاقوں سے تنگ صومالیہ کی مدد کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ تمام ممالک مل کر یمن کو تہہ و تیغ کرنے کے بجائے کوئی حل نکالنے کے لیے بیٹھے ہوں۔ اور اسی طرح سیرالیون میں بھی یہی اتحاد مصروف عمل ہو کر وہ دن لائے کہ اعلان کیا جا سکے کہ اب اس ملک میں امن فوج کی ضرورت نہیں رہی ۔ یا پھر سوڈان اور دیگر ممالک سے الشباب کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
اگر تو یہ تمام اقدامات مستقبل قریب میں عملاًنظر آتے ہیں تو پھر بے شک ایران کو نظر انداز بھی کر دیں۔ شام و عراق کو نہ شامل کریں۔ عمان کی عدم شمولیت بھی قابل توجیح ہے۔ انڈونیشیا کا شامل نہ ہونا بھی غیر اہم ٹھہرا۔ اور OIC کے باقی اسلامی ممالک بھی چھوڑیے۔ لیکن اگر یہ اتحاد صرف شام ، عراق ، یمن میں مخصوص نظریات کے خلاف ہی لڑتا نظر آتا ہے تو پھر اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ اس اتحاد کے قیام کا مقصد ہی کھلی منافقت ہے۔




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں