بلدیاتی نظام کا آخری مرحلہ بھی خدا خدا کر کے مکمل ہوا اور اختیارات کی
نچلی سطح تک منتقلی کے دعوے کو اب حقیقت کا جامہ پہنانے کے مرحلے کا آغاز
قریب قریب ہے۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے دعوے کس قدر سچ ہیں اور
کس قدر مبالغہ ، اس کا فیصلہ تو آنے والے چند دنوں میں یقیناًہو جائے گا جب
منتخب کیے گئے نمائندے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ اور وہ اپنے فرائض کی
ادائیگی کے لیے حکومت سے رجوع کے ساتھ ساتھ عوام میں واپس جائیں گے۔ لیکن
ان ہونے والے بلدیاتی انتخابات اور پاکستان کے بلدیاتی نظام کی خامیاں ایک
مرتبہ پھر عیاں ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
راقم کو خود حالیہ بلدیاتی انتخابات میں تین انتخابی حلقوں کے مشاہدے کا موقع ملا۔ اور کم و بیش ہر جگہ حالات ایک طرح کے نظر آئے۔ جس سے یقیناًیہی ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک مرتبہ پھر شفاف اور منصفانہ انتخابات کروانے میں بہت حد تک ناکام رہا ہے ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پولنگ افسران کے لیے جو حفاظتی اہلکار تعینات کیے گئے تھے ان کے لیے ایک ضابطہ اخلاق نمبریF.4(10)/2015-LGE(P) جاری کیا گیا جس کے تحت ریٹرننگ افسران اور پریزائڈنگ افسران کسی بھی صورتحال میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو طلب کرنے کے مجاز تھے۔ یا یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ ان کے اختیار میں تھا۔ لیکن شاید انہیں اپنے اختیارات کا پتا نہیں تھا یا ان کی تربیت ہی نہیں کی گئی تھی کہ بلدیاتی امیدواروں کے نا بلد نمائندے بھی پریزائڈنگ افسران کے سر پہ ان سے الجھتے رہے اور انتخابی عملہ بے بس نظر آیا۔ اسی طرح مذکورہ بالا ضابطہ اخلاق میں ایک شق تھی کہ کسی بھی ہنگامے یا افراتفری کے حوالے سے سیکیورٹی اہلکار پریزائڈنگ افسر کے طلب کرنے پر قانونی کاروائی کریں گی۔ پولنگ اسٹیشن زیادہ تر سرکاری سکولوں میں بنائے گئے۔ پریزائڈنگ افسر کسی بھی مخصوص کمرے میں انتخابی مراحل کی نگرانی کر رہا ہے اور سکول کے احاطے میں ہنگامے پہ وہ کس طرح کاروائی کے احکامات باہر آ کر دے گا۔ یہ بظاہر چھوٹی سی خامی ہے لیکن اس کا اثر اس وقت دیکھنے میں آیا جب ایک جگہ دو مخالف دھڑوں کے درمیان سکول کے اندر ہاتھا پائی ہو گئی ۔ لیکن صورت حال قابو کرنے میں اتنا وقت صرف ہو گیا کہ ووٹ ڈالنے کے منتظر لوگ شدید پریشانی کا شکار ہوئے۔
اسی طرح پولنگ ایجنٹس کے لیے بھی ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا اور اس ضابطہ اخلاق کی شق3 میں درج تھا کہ پولنگ ایجنٹس پولنگ ایجنٹس کے اندر یا باہر 400 میٹر کی حدود تک کسی ووٹر کو بھی اپنے حامی امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کا نہیں کہہ سکتے ۔ لیکن اس کے برعکس پولنگ ایجنٹس پولنگ اسٹیشن کے اندر انتخابی عملے کے سامنے بھی ووٹروں کو نشانات دکھا کر یاددہانی کرواتے نظر آئے۔ اس ضابطہ اخلاق کی شق4 میں درج تھا کہ پولنگ ایجنٹ ہر اعتراض کے عوض مبلغ 50 روپے پریزائڈنگ افسر کے پاس جمع کروائے گا۔ اور شق5 میں یہ درج تھا کہ غیر ضروری اعتراضات کی اس لیے ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی کہ اس سے انتخابی عمل متاثر ہو گا۔ لیکن حیران کن طور پر تمام امیدواروں نے چن کر وہی لوگ اپنے پولنگ ایجنٹ نامزد کیے تھے جو علاقے میں جھگڑالو مشہور ہوں۔ اور ہر ووٹر پہ اعتراض کرنا اپنا فرض سمجھتے ہوں۔ اسی لیے ایک پولنگ اسٹیشن پہ ہر چند لمحے بعد توں تکار ہوتی رہی۔ شق 6 میں کہا گیا کہ پولنگ ایجنٹ کے لیے لازم ہے کہ وہ اعتراض کرتے ہوئے مہذب رہے اور پریزائڈنگ افسر سے لہجا دھیما رکھے۔ لیکن پولنگ ایجنٹ تو کجا امیدواروں کے حامی بھی پریزائڈنگ افسران کے سر پہ سوار نظر آئے۔ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے لیے جو ضابطہ اخلاق جاری ہوا اس کی شق 4میں ایک جگہ درج ہے کہ وہ پولنگ اسٹیشن کی حدود کے 200میٹرکے اندر کسی کو قائل نہیں کریں گے۔ لیکن راقم جس بھی جگہ گیا وہاں نہ صرف تمام امیدوار موجود تھے بلکہ پوری انتخابی مہم بھی پولنگ اسٹیشن کے اندر جاری رکھی ۔ شق 5 مطابق کسی بھی پولنگ ایجنٹ یا امیدوار کے لیے پولنگ اسٹیشن کی 100میٹر کی حدود میں کسی بھی قسم کا بینر ، اشتہار یا نشان لگانا ممنوع تھا جس سے ووٹر کو اپنی طرف راغب کرنے کا تاثر جا رہا ہو۔ لیکن اس کے بھی برعکس پولنگ اسٹیشن کے اندر بھی ایسی گاڑویں کی بھرمار تھی جن پہ امیدواروں کے اشتہارات آویزاں تھے۔ اور پولنگ ایجنٹس بھی قواعد کے برعکس نشان بتاتے رہے۔ ضابطہ اخلاق کے مطابق انتخابی پوسٹر کا سائز3x2فٹ جب کہ بینر کا سائز9x3فٹ سے تجاوز کرنے کی ممانعت تھی اور ہورڈنگز پر مکمل پابندی تھی۔ لیکن حیران کن طور پر 10x10اور25x50 کے بینر بھی آویزاں تھے۔ اور بل بورڈ ، سائن بورڈز اور روڈ سائٹ ہورڈنگز کا سہارا بھی لیا گیا۔ اور مزے کی بات یہ کہ پہلے ہورڈنگز انتخابی مہم کی تھیں اب شکریے کی نصب ہیں۔ اور ضابطہ اخلاق پر عمل کروانے والے خاموش تماشائی ہیں۔ شق 16 کے مطابق انتخابی امیدواروں و حمایت کرنے والوں پہ لازم تھا کہ وہ تنقید صرف کام اور پالیسیوں پہ کریں۔ لیکن یہاں بھی تمام امیدواران ایک دوسرے کی ذات کے بخیے ادھیڑتے نظر آئے۔اور جہاں تک تعلق ہے شق17 کا کہ خاندان کے افراد کے علاوہ ووٹر کو اپنی گاڑی میں لانا ممنوع تھا تو شاید پورا حلقہ ہی امیدواروں کا خاندان ہوتا ہے۔ شق 20 کے مطابق یونین کونسل چیئرمین و وائس چیئرمین01 لاکھ اور یونین کونسل کے ممبران20ہزار روپے تک کے انتخابی اخراجات کرنے کی اجازت تھی۔ لیکن ایک کونسلر کی سطح پہ بھی لاکھوں خرچ کیے گئے۔
یہ کہنا بے جا ہرگز نہیں ہو گا کہ جس کے لیے بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ضابطہ ء اخلاق جاری کیا گیا اس کی حیثیت صرف کاغذ میں سیاہی کی صورت رہی ورنہ عملی سطح پر ضابطء اخلاق کی دھجیاں اڑتی ہی نظر آئیں۔ نہ تو ووٹر وں کو اپنے حقوق کا پتا تھا۔ یا وہ جان بوجھ کہ انجان بنے بیٹھے تھے۔ نہ ہی امیدواران الیکشن کمیشن کی کسی شق کو خاطر میں لائے۔ اس بارے میں بھی ابہام ہی رہا کہ آیا سرکاری ملازمین کسی امیدوار کے پولنگ ایجنٹ کے فرائض سر انجام دے سکتے ہیں یا نہیں۔ اس کے علاوہ پولنگ ایجنٹ بلا جھجھک ضابطہء اخلاق کے برعکس کام کرتے نظر آئے۔ امیدوار نہ صرف پولنگ اسٹیشن کے اندر تک موجود رہے بلکہ انتخابی مہم بھی زوروں پہ رہی ۔
کسی بھی قسم کا ضابطہء اخلاق صرف اس صورت میں فائدہ مند ہو سکتا ہے جب اس پر عمل در آمد کا پورا ایک نظام موجود ہو اور عام عوام کے لیے اس ضابطہ ء اخلاق کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی فوری طور پر رپورٹ کرنے کی مکمل جانکاری ہو۔ اکثر سنتے آئے کہ الیکشن کو مانیٹر کرنے لیے ایک کنٹرول روم بنایا جاتا ہے لیکن آج تک اس کنٹرول روم کا حدود اربعہ نہ تو دیکھا جا سکا۔ نہ ہی عوام کو پتا ہے کہ اس کنٹرول روم کا مقصد کیا ہوتا ہے۔راقم کی طرح ہزاروں لوگوں نے لاکھوں خلاف ورزیاں دیکھی ہوں گی لیکن ان کو کسی ایسے نظام سے آگاہی نہیں جس کی مدد سے ان خامیوں اور خلاف ورزیوں کو اعلیٰ سطح پر رپورٹ کیا جا سکے۔ جب تک عوام میں یہ شعور نہیں بیدار کیا جائے گا کہ وہ کسی بھی سطح کی خلاف ورزی کو رپورٹ کر سکتے ہیں۔ اور خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرنے کے نظام کر جب تک سہل نہیں بنایا جائے گا اس وقت تک نہ کوئی ضابطہ ء نافذ ہو سکتا ہے نہ ہی کسی بھی قسم کے انتخابات سے حقیقی معنوں میں عوام مستفید ہو سکتے ہیں۔ چہرے بدلتے رہیں گے۔ نام بدلتے رہیں گے ۔ لیکن نظام صرف اس وقت ہی تبدیل ہو گا ۔ جب ہم تبدیل کرنا چاہیں گے۔
راقم کو خود حالیہ بلدیاتی انتخابات میں تین انتخابی حلقوں کے مشاہدے کا موقع ملا۔ اور کم و بیش ہر جگہ حالات ایک طرح کے نظر آئے۔ جس سے یقیناًیہی ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک مرتبہ پھر شفاف اور منصفانہ انتخابات کروانے میں بہت حد تک ناکام رہا ہے ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پولنگ افسران کے لیے جو حفاظتی اہلکار تعینات کیے گئے تھے ان کے لیے ایک ضابطہ اخلاق نمبریF.4(10)/2015-LGE(P) جاری کیا گیا جس کے تحت ریٹرننگ افسران اور پریزائڈنگ افسران کسی بھی صورتحال میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو طلب کرنے کے مجاز تھے۔ یا یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ ان کے اختیار میں تھا۔ لیکن شاید انہیں اپنے اختیارات کا پتا نہیں تھا یا ان کی تربیت ہی نہیں کی گئی تھی کہ بلدیاتی امیدواروں کے نا بلد نمائندے بھی پریزائڈنگ افسران کے سر پہ ان سے الجھتے رہے اور انتخابی عملہ بے بس نظر آیا۔ اسی طرح مذکورہ بالا ضابطہ اخلاق میں ایک شق تھی کہ کسی بھی ہنگامے یا افراتفری کے حوالے سے سیکیورٹی اہلکار پریزائڈنگ افسر کے طلب کرنے پر قانونی کاروائی کریں گی۔ پولنگ اسٹیشن زیادہ تر سرکاری سکولوں میں بنائے گئے۔ پریزائڈنگ افسر کسی بھی مخصوص کمرے میں انتخابی مراحل کی نگرانی کر رہا ہے اور سکول کے احاطے میں ہنگامے پہ وہ کس طرح کاروائی کے احکامات باہر آ کر دے گا۔ یہ بظاہر چھوٹی سی خامی ہے لیکن اس کا اثر اس وقت دیکھنے میں آیا جب ایک جگہ دو مخالف دھڑوں کے درمیان سکول کے اندر ہاتھا پائی ہو گئی ۔ لیکن صورت حال قابو کرنے میں اتنا وقت صرف ہو گیا کہ ووٹ ڈالنے کے منتظر لوگ شدید پریشانی کا شکار ہوئے۔
اسی طرح پولنگ ایجنٹس کے لیے بھی ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا اور اس ضابطہ اخلاق کی شق3 میں درج تھا کہ پولنگ ایجنٹس پولنگ ایجنٹس کے اندر یا باہر 400 میٹر کی حدود تک کسی ووٹر کو بھی اپنے حامی امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کا نہیں کہہ سکتے ۔ لیکن اس کے برعکس پولنگ ایجنٹس پولنگ اسٹیشن کے اندر انتخابی عملے کے سامنے بھی ووٹروں کو نشانات دکھا کر یاددہانی کرواتے نظر آئے۔ اس ضابطہ اخلاق کی شق4 میں درج تھا کہ پولنگ ایجنٹ ہر اعتراض کے عوض مبلغ 50 روپے پریزائڈنگ افسر کے پاس جمع کروائے گا۔ اور شق5 میں یہ درج تھا کہ غیر ضروری اعتراضات کی اس لیے ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی کہ اس سے انتخابی عمل متاثر ہو گا۔ لیکن حیران کن طور پر تمام امیدواروں نے چن کر وہی لوگ اپنے پولنگ ایجنٹ نامزد کیے تھے جو علاقے میں جھگڑالو مشہور ہوں۔ اور ہر ووٹر پہ اعتراض کرنا اپنا فرض سمجھتے ہوں۔ اسی لیے ایک پولنگ اسٹیشن پہ ہر چند لمحے بعد توں تکار ہوتی رہی۔ شق 6 میں کہا گیا کہ پولنگ ایجنٹ کے لیے لازم ہے کہ وہ اعتراض کرتے ہوئے مہذب رہے اور پریزائڈنگ افسر سے لہجا دھیما رکھے۔ لیکن پولنگ ایجنٹ تو کجا امیدواروں کے حامی بھی پریزائڈنگ افسران کے سر پہ سوار نظر آئے۔ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے لیے جو ضابطہ اخلاق جاری ہوا اس کی شق 4میں ایک جگہ درج ہے کہ وہ پولنگ اسٹیشن کی حدود کے 200میٹرکے اندر کسی کو قائل نہیں کریں گے۔ لیکن راقم جس بھی جگہ گیا وہاں نہ صرف تمام امیدوار موجود تھے بلکہ پوری انتخابی مہم بھی پولنگ اسٹیشن کے اندر جاری رکھی ۔ شق 5 مطابق کسی بھی پولنگ ایجنٹ یا امیدوار کے لیے پولنگ اسٹیشن کی 100میٹر کی حدود میں کسی بھی قسم کا بینر ، اشتہار یا نشان لگانا ممنوع تھا جس سے ووٹر کو اپنی طرف راغب کرنے کا تاثر جا رہا ہو۔ لیکن اس کے بھی برعکس پولنگ اسٹیشن کے اندر بھی ایسی گاڑویں کی بھرمار تھی جن پہ امیدواروں کے اشتہارات آویزاں تھے۔ اور پولنگ ایجنٹس بھی قواعد کے برعکس نشان بتاتے رہے۔ ضابطہ اخلاق کے مطابق انتخابی پوسٹر کا سائز3x2فٹ جب کہ بینر کا سائز9x3فٹ سے تجاوز کرنے کی ممانعت تھی اور ہورڈنگز پر مکمل پابندی تھی۔ لیکن حیران کن طور پر 10x10اور25x50 کے بینر بھی آویزاں تھے۔ اور بل بورڈ ، سائن بورڈز اور روڈ سائٹ ہورڈنگز کا سہارا بھی لیا گیا۔ اور مزے کی بات یہ کہ پہلے ہورڈنگز انتخابی مہم کی تھیں اب شکریے کی نصب ہیں۔ اور ضابطہ اخلاق پر عمل کروانے والے خاموش تماشائی ہیں۔ شق 16 کے مطابق انتخابی امیدواروں و حمایت کرنے والوں پہ لازم تھا کہ وہ تنقید صرف کام اور پالیسیوں پہ کریں۔ لیکن یہاں بھی تمام امیدواران ایک دوسرے کی ذات کے بخیے ادھیڑتے نظر آئے۔اور جہاں تک تعلق ہے شق17 کا کہ خاندان کے افراد کے علاوہ ووٹر کو اپنی گاڑی میں لانا ممنوع تھا تو شاید پورا حلقہ ہی امیدواروں کا خاندان ہوتا ہے۔ شق 20 کے مطابق یونین کونسل چیئرمین و وائس چیئرمین01 لاکھ اور یونین کونسل کے ممبران20ہزار روپے تک کے انتخابی اخراجات کرنے کی اجازت تھی۔ لیکن ایک کونسلر کی سطح پہ بھی لاکھوں خرچ کیے گئے۔
یہ کہنا بے جا ہرگز نہیں ہو گا کہ جس کے لیے بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ضابطہ ء اخلاق جاری کیا گیا اس کی حیثیت صرف کاغذ میں سیاہی کی صورت رہی ورنہ عملی سطح پر ضابطء اخلاق کی دھجیاں اڑتی ہی نظر آئیں۔ نہ تو ووٹر وں کو اپنے حقوق کا پتا تھا۔ یا وہ جان بوجھ کہ انجان بنے بیٹھے تھے۔ نہ ہی امیدواران الیکشن کمیشن کی کسی شق کو خاطر میں لائے۔ اس بارے میں بھی ابہام ہی رہا کہ آیا سرکاری ملازمین کسی امیدوار کے پولنگ ایجنٹ کے فرائض سر انجام دے سکتے ہیں یا نہیں۔ اس کے علاوہ پولنگ ایجنٹ بلا جھجھک ضابطہء اخلاق کے برعکس کام کرتے نظر آئے۔ امیدوار نہ صرف پولنگ اسٹیشن کے اندر تک موجود رہے بلکہ انتخابی مہم بھی زوروں پہ رہی ۔
کسی بھی قسم کا ضابطہء اخلاق صرف اس صورت میں فائدہ مند ہو سکتا ہے جب اس پر عمل در آمد کا پورا ایک نظام موجود ہو اور عام عوام کے لیے اس ضابطہ ء اخلاق کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی فوری طور پر رپورٹ کرنے کی مکمل جانکاری ہو۔ اکثر سنتے آئے کہ الیکشن کو مانیٹر کرنے لیے ایک کنٹرول روم بنایا جاتا ہے لیکن آج تک اس کنٹرول روم کا حدود اربعہ نہ تو دیکھا جا سکا۔ نہ ہی عوام کو پتا ہے کہ اس کنٹرول روم کا مقصد کیا ہوتا ہے۔راقم کی طرح ہزاروں لوگوں نے لاکھوں خلاف ورزیاں دیکھی ہوں گی لیکن ان کو کسی ایسے نظام سے آگاہی نہیں جس کی مدد سے ان خامیوں اور خلاف ورزیوں کو اعلیٰ سطح پر رپورٹ کیا جا سکے۔ جب تک عوام میں یہ شعور نہیں بیدار کیا جائے گا کہ وہ کسی بھی سطح کی خلاف ورزی کو رپورٹ کر سکتے ہیں۔ اور خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرنے کے نظام کر جب تک سہل نہیں بنایا جائے گا اس وقت تک نہ کوئی ضابطہ ء نافذ ہو سکتا ہے نہ ہی کسی بھی قسم کے انتخابات سے حقیقی معنوں میں عوام مستفید ہو سکتے ہیں۔ چہرے بدلتے رہیں گے۔ نام بدلتے رہیں گے ۔ لیکن نظام صرف اس وقت ہی تبدیل ہو گا ۔ جب ہم تبدیل کرنا چاہیں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں