جمعرات، 26 نومبر، 2015

زبانِ اہلِ زمیں ۔۔۔۔ ایک تعارف
زبانِ اہلِ زمیں ، ملک میں بسنے والے ان انسانوں کے الفاظ ، ان کی سوچ کی عکاسی ہے ہیں جو اشرافیہ کی سطح سے نیچے رہتے ہیں ۔ جن کا تعلق اس طبقے سے ہے جس کے پاس سب موجود ہے لیکن وہ اپنی تمام زندگی رزق کے دائرے میں گھومتے گزار دیتے ہیں ۔ جن کے مسائل کے حل کے لیے کبھی توجہ نہیں دی جاتی ۔ یہ لفظ ان لوگوں کی زبان ہیں جوملک میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس طبقے کی زبان جو معاشرے میں سب سے زیادہ محنت کرتا ہے ، یہ طبقہ نہ تو امیر ہے اور نہ ہی غریب بلکہ یہ طبقہ ان کے درمیان رہتا ہے ۔ اس طبقے کو غریب اس لیے نہیں اپناتے کہ وہ محنت کرکے مقام حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور امیر اس لیے نہیں اپنا تے کہ وہ اس طبقے کی صلاحیتوں سے خوفزہ رہتے ہیں ۔ معاشرے کے لیے بے حد اہم لیکن معاشرہ ان کے لیے کبھی کچھ نہیں کرتا ۔یہ طبقہ معاشرے کو چلانے اور ملک میں بہتری لانے کے لیے سوچ تو سکتا ہے لیکن ان کے وسائل اس حد تک نہیں ہیں کہ عملا کچھ کر پائے اور جو طبقہ ایسے وسائل رکھتا ہے جو معاشرے کو سنوارنے کے لیے استعمال کیے جائیں وہ اس احساس سے ہی عاری ہے ۔بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایک جانب سیلا ب اور قحط کی صورت میں موت کا آفریت ان گنت جانوں کو نگلتا جارہا ہے تو دوسری جانب ایک ہی دسترخوان پر پچاس ڈشز سجائی جاتی ہیں ۔ ان گنت پیسہ سڑکیں بنانے پر لگانے والے موت کے اس آفریت سے اپنے ہی لوگوں کو نکالنے کے لیے کبھی کوشش نہیں کرتے ۔ زمانے کے جس دور سے ہم گزر رہے ہیں یہ بے حسی ، افراتفری کا دور ہے جہاں معاشرے تیزی سے تنزلی کی جانب رواں دواں ہے ۔ زبانِ اہلِ زمین کی تحریریں انھی رویوں کی عکاس ہیں ۔ یہ بات امرِ مسلم ہے کہ بعض تحریریں اکثر ناقابلِ بردداشت ہوتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تحریر میں سقم ہے یا تحریر کڑواہٹ لیے ہوئے ہے بلکہ اس کا مطب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے بعض رویے ناقابلِ برداشت ہیں ۔ان رویوں کی کڑواہٹ معاشرے کی رگوں میں اترتی جا رہی ہے ۔یہ تحیریریں صرف اس لیے ضبطِ قلم میں لائی گئی ہیں کہ ان رویوں کی کڑواہٹ ان لوگوں تک پہنچے جو ان کے ذمہ دار ہیں اور اس رویے کو بدل سکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ معاشرے کو وہی لوگ بھلائی سے ہم کنار کر سکتے ہیں جو ان غلط رویوں کو اپنائے ہوئے ہیں ۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی جگہ خود کو بدلنا ہو گا ، ہر ایک کو اپنا احتساب کرنا ہو گا ، جب ہر اکائی اپنا کام احسن طریقے سے کرنے لگے تو معاشرہ خودبخود سدھر سکتا ہے ۔ ایک لکھاری کا کام معاشرے میں موجود ناسوروں کی نشاندہی کرنا ہے تاکہ بر وقت ان ناسوروں کو کاٹا جا سکے ۔ اس کے لیے زبانِ اہل زمیں ایک ادنی ٰ لیکن بھرپور کوشش ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں