دو عالمی طاقتیں آمنے سامنے
دو عالمی طاقتیں اس وقت آمنے سامنے ہیں۔ روس ماضی میں دنیا کے عالمی منظر نامے پہ امریکہ کے ساتھ عالمی منظر نامے کا رُخ برابری کی بنیاد پر بدلنے میں اثر انداز ہوتا رہا ہے۔ جب کہ روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کا دور بھی دونوں عالمی طاقتوں کے مابین مختلف معاملات پر رسہ کشی کا دور رہا ہے۔ جس میں دونوں طاقتیں اپنے بلاک کو مضبوط کرنے میں کوشاں رہیں۔ امریکہ کو جہاں برطانیہ، فرانس، ہالینڈ اور دیگر یورپی ممالک کی مدد حاسل رہی وہیں روس کے ساتھ ایران ، چین ، بھارت اور دیگر ممالک منسلک رہے ۔ لیکن 70 کی دہائی میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ واحد سپر پاور بن کے ابھرا۔ لیکن اس کے باوجود روس نے کوششیں جاری رکھیں۔ اور خود کو امریکہ کے سامنے سرنگوں نہیں کیا۔ یا یہ کہنا بہتر ہو گا کہ امریکی پالیسی کو خود پہ حاوی نہیں ہونے دیا۔ ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ روس نے وسط ایشیائی ریاستوں میں اپنا اثر و رسوخ دوبارہ سے قائم کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وسط ایشیائی ریاستیں قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ اس لیے امریکہ اور روس دونوں کے لیے یہ خطہ نہایت اہم رہا ہے۔
2008 کے دوران جارجیا میں درمیانی مدت کی محاذ آرائی سے روس نے کسی قدر دنیا پہ یہ ضرور واضح کر دیا کہ روس اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو چکا ہے اور حالات سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد دوبارہ سے اس کے لیے سازگار ہو رہے ہیں۔ جارجیا کے تنازعے میں امریکہ نے کھل کر روس کی مخالفت کی تھی ۔حتیٰ کہ جنگ میں روس کو جنگی جہازوں کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑا تھا لیکن بہر حال روس کی برتری رہی ۔ اس وقت کے وزیر اعظم ولادی میر پوٹن نے فوج کو جدید خطوط پہ استوار کرنا شروع کیا۔ پوٹن کے زیر قیادت روس نے نہ صرف فوج اور اسلحے میں جدت پیدا کی بلکہ بغیر کسی بڑے خون خرابے کے 2014 میں کریمیا(Crimea) کو بھی اپنا حصہ بنا لیا۔ اس کے علاوہ جیسے ہی روس نے اپنے اندرونی حالات بہتر کر لیے تو مشرقی یوکرائن میں بھی اپنا اثر و رسوخ مضبوط کر لیا۔ اس تمام صورت حال پہ مغربی ممالک بالعموم اور امریکہ بالخصوص تنقید بھی کرتے رہے اور ہر ممکن حد تک روکنے کی کوشش بھی کرتے رہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ اسی دوران امریکی راز افشاء کرنے والے اسنوڈن کو روس نے پناہ دے دی۔
اس تمام عرصے میں مغربی دنیا کے کرتا دھرتا اس بات پہ پھر بھی مطمئن رہے کہ کریمیا اور یوکرائن میں مداخلت کے باوجود روس کی فوجی طاقت اور تربیت شاید اس معیار کی نہیں کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ کسی بھی طرح کی مہم جوئی کر سکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ، نیٹو سمیت دیگر تمام ادارے اس وقت مکمل طور پر مغربی سوچ کے زیر اثر ہیں اور مغربی دنیا ہی اس وقت عالمی برادری کی نمائندہ تصور کی جارہی ہے۔ لیکن شام کے تنازعے میں یہ تاثر زائل ہو تا نظر آ رہا ہے۔ روس کا اثر امریکی کوششوں سے سربیا اور کوسووو میں پہلے ہی کافی حد تک کم ہو چکا ہے۔ عراق میں بھی چہروں کی تبدیلی سے روس کا عمل دخل کافی کم ہوا ہے۔ شام اس خطے کا واحد ملک ہے جہاں روس کے بارے میں اب بھی مثبت تاثر پایا جاتا ہے۔ شام میں پہلے یہی رائے پیدا ہو چلی تھی کہ یہاں پہ ظاہری اور باطنی طور پر اسد حکومت کے علاوہ ایران ایک ایسی قوت ہے جو امریکہ کی ہر لحاظ سے مخالفت کر رہی ہے۔ الیپو(Aleppo) میں ایرانی فوجیوں کی موجودگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ شام کی حکومتی سطح پر حمایت بھی کسی حوالے سے پوشیدہ نہیں ہے۔ لیکن 30ستمبر2015 کے بعد سے منظر نامہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔
روس نے شام کے شورش زدہ علاقوں میں نہ صرف فضائی کاروائیاں شروع کر دی ہیں بلکہ محدود پیمانے پر زمینی کاروائی پہ بھی کمربستہ ہے۔ ابتدائی طور پر شام کے شمال مغربی علاقے لٹاکیا(Latakia) کے علاقے میں قائم ہوائی اڈے کی حفاظت کے لیے 600 فوجیوں پہ مشتمل ایک دستہ تعینات کیا گیا ہے۔ جب کہ درجنوں کے حساب سے جنگی جہاز پہلے سے ہی موجود ہیں۔ کاروائیوں کے پہلے دن سے ہی امریکہ روس کو ان کاروائیوں کے جواب میں سنگین نتائج کی دھمکی دے چکا ہے لیکن روس اپنی بات پہ قائم ہے کہ شام کیوں کہ روس کا ہم خیال رہا ہے لہذا شام کی حکومت کی مدد کرنا اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ یہ شاید ایک طویل عرصے بعد ہوا ہے کہ دونوں عالمی طاقتیں کھل کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے صف بستہ ہیں۔ پیرس حملوں کے بات فرانس بھی اس جنگ میں کھل کر شامل ہو گیا ہے جب کہ ترکی کی جانب سے روسی طیارہ مار گرائے جانے کے بعد سے اس تمام مسلے نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔
شام کے تنازعے میں دونوں ممالک کے رویوں میں سرد جنگ کے رویوں کا اثر بھی واضح طور پہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک طرف امریکہ کے بقول وہ شدت پسند عناصر کے خلاف کاروائیاں کر رہاہے تو دوسری جانب جانبداری کی مثال قائم کرتے ہوئے وہ بشار الاسد کو جمہوری طریقے سے ہٹانے کے بجائے حکومت مخالف باغیوں کو نہ صرف اسلحہ پہنچا رہا ہے بلکہ ان کی تربیت بھی کر رہا ہے۔ مغربی دنیا روس کی فوجی صلاحیت کے بارے میں گومگو کا شکار رہی ہے اور ایک طویل عرصے بعد روس کو اپنی جنگی صلاحتیں آزمانے کا موقع بھی ملا ہے۔ شدید ترین مخالفت کے باوجود بھی مغربی میڈیا روس کو ایک بدلے ہوئے ملک کے روپ میں دیکھ رہا ہے۔ 14 اکتوبر کی نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس بات میں شبہ نہیں کہ روس ایک دن میں اتنی کاروائیاں کر رہا ہے جتنی امریکی و اتحادی ایک مہینے میں کر پا رہے تھے۔ شام کے تنازعے میں وہ روس نظر آ رہا ہے جس کی بنیادیں پوٹن نے جدیدیت پہ استوار کی ہیں۔ روس اس تمام کاروئی کی بالکل ایسے ہی منظر کشی کر رہا ہے جیسے امریکہ نے 1991 کی خلیج جنگ میں کی تھی۔ اس کے علاوہ اس تنازعے میں جدید اسلحے سے روس نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ دنیا پھر سے کشیر ملکی عالمی نظام دیکھ رہی ہو۔ شام جنگ میں مغربی دنیا کے لیے سب سے زیادہ حیران کن روس کی میزائل ٹیکنالوجی ہے جو 900 میل تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ روس نے اس جنگ میں پہلی دفعہ Sukhoi SU-34 جنگی جہاز بھی استعمال کیے جو اس سے پہلے استعمال نہیں ہوئے اور نیٹو جسے Fullback کے نام سے جانتی تھی ۔ یہ ایک جدید روس کا چہرہ تھا۔
حقیقی معنوں میں روس شام کے تنازعے میں سامنے آ کھڑا ہوا ہے اور امریکہ جو طویل عرصے سے عالمی طاقت واحد سپر پاور کے طور پہ استعمال کر رہا تھااس کے لیے خطرے کی گھنٹی بجی ہے۔ شام میں دو عالمی طاقتوں کا سامنے آ جانا شام کے تنازعے پہ کیا اثر ڈالے گا اس کا فیصلہ تو وقت کرئے گا لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ مستقبل کے عالمی منظر نامے میں فیصلے یقیناًروس کے بناء ممکن نہیں ہو پائیں گے۔ ابھی روس کو مزید کام کرنا ہے لیکن ابھی سے اس نے دنیا پہ اپنی دھاک دوبارہ سے بٹھانا شروع کر دی ہے۔ امریکہ جو حکومت مخالف باغیوں کی مدد کے ساتھ دیگر شدت پسندوں کو بھی اسد حکومت کے خلاف ڈھیل دے رہا تھا روس کی کاروائیوں سے یکسر رخ تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پوٹن نے شاید ٹھیک کہا ہے کہ روس دنیا پہ یہ واضح کرنا چاہتا تھا کہ روس کے پاس نہ صرف جدید اسلحہ موجود ہے بلکہ اس کو استعمال کرنے لیے جدید افرادی قوت بھی موجود ہے۔ اور وقت بتا رہا ہے کہ اس بیان کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔
دو عالمی طاقتیں اس وقت آمنے سامنے ہیں۔ روس ماضی میں دنیا کے عالمی منظر نامے پہ امریکہ کے ساتھ عالمی منظر نامے کا رُخ برابری کی بنیاد پر بدلنے میں اثر انداز ہوتا رہا ہے۔ جب کہ روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کا دور بھی دونوں عالمی طاقتوں کے مابین مختلف معاملات پر رسہ کشی کا دور رہا ہے۔ جس میں دونوں طاقتیں اپنے بلاک کو مضبوط کرنے میں کوشاں رہیں۔ امریکہ کو جہاں برطانیہ، فرانس، ہالینڈ اور دیگر یورپی ممالک کی مدد حاسل رہی وہیں روس کے ساتھ ایران ، چین ، بھارت اور دیگر ممالک منسلک رہے ۔ لیکن 70 کی دہائی میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ واحد سپر پاور بن کے ابھرا۔ لیکن اس کے باوجود روس نے کوششیں جاری رکھیں۔ اور خود کو امریکہ کے سامنے سرنگوں نہیں کیا۔ یا یہ کہنا بہتر ہو گا کہ امریکی پالیسی کو خود پہ حاوی نہیں ہونے دیا۔ ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ روس نے وسط ایشیائی ریاستوں میں اپنا اثر و رسوخ دوبارہ سے قائم کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وسط ایشیائی ریاستیں قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ اس لیے امریکہ اور روس دونوں کے لیے یہ خطہ نہایت اہم رہا ہے۔
2008 کے دوران جارجیا میں درمیانی مدت کی محاذ آرائی سے روس نے کسی قدر دنیا پہ یہ ضرور واضح کر دیا کہ روس اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو چکا ہے اور حالات سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد دوبارہ سے اس کے لیے سازگار ہو رہے ہیں۔ جارجیا کے تنازعے میں امریکہ نے کھل کر روس کی مخالفت کی تھی ۔حتیٰ کہ جنگ میں روس کو جنگی جہازوں کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑا تھا لیکن بہر حال روس کی برتری رہی ۔ اس وقت کے وزیر اعظم ولادی میر پوٹن نے فوج کو جدید خطوط پہ استوار کرنا شروع کیا۔ پوٹن کے زیر قیادت روس نے نہ صرف فوج اور اسلحے میں جدت پیدا کی بلکہ بغیر کسی بڑے خون خرابے کے 2014 میں کریمیا(Crimea) کو بھی اپنا حصہ بنا لیا۔ اس کے علاوہ جیسے ہی روس نے اپنے اندرونی حالات بہتر کر لیے تو مشرقی یوکرائن میں بھی اپنا اثر و رسوخ مضبوط کر لیا۔ اس تمام صورت حال پہ مغربی ممالک بالعموم اور امریکہ بالخصوص تنقید بھی کرتے رہے اور ہر ممکن حد تک روکنے کی کوشش بھی کرتے رہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ اسی دوران امریکی راز افشاء کرنے والے اسنوڈن کو روس نے پناہ دے دی۔
اس تمام عرصے میں مغربی دنیا کے کرتا دھرتا اس بات پہ پھر بھی مطمئن رہے کہ کریمیا اور یوکرائن میں مداخلت کے باوجود روس کی فوجی طاقت اور تربیت شاید اس معیار کی نہیں کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ کسی بھی طرح کی مہم جوئی کر سکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ، نیٹو سمیت دیگر تمام ادارے اس وقت مکمل طور پر مغربی سوچ کے زیر اثر ہیں اور مغربی دنیا ہی اس وقت عالمی برادری کی نمائندہ تصور کی جارہی ہے۔ لیکن شام کے تنازعے میں یہ تاثر زائل ہو تا نظر آ رہا ہے۔ روس کا اثر امریکی کوششوں سے سربیا اور کوسووو میں پہلے ہی کافی حد تک کم ہو چکا ہے۔ عراق میں بھی چہروں کی تبدیلی سے روس کا عمل دخل کافی کم ہوا ہے۔ شام اس خطے کا واحد ملک ہے جہاں روس کے بارے میں اب بھی مثبت تاثر پایا جاتا ہے۔ شام میں پہلے یہی رائے پیدا ہو چلی تھی کہ یہاں پہ ظاہری اور باطنی طور پر اسد حکومت کے علاوہ ایران ایک ایسی قوت ہے جو امریکہ کی ہر لحاظ سے مخالفت کر رہی ہے۔ الیپو(Aleppo) میں ایرانی فوجیوں کی موجودگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ شام کی حکومتی سطح پر حمایت بھی کسی حوالے سے پوشیدہ نہیں ہے۔ لیکن 30ستمبر2015 کے بعد سے منظر نامہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔
روس نے شام کے شورش زدہ علاقوں میں نہ صرف فضائی کاروائیاں شروع کر دی ہیں بلکہ محدود پیمانے پر زمینی کاروائی پہ بھی کمربستہ ہے۔ ابتدائی طور پر شام کے شمال مغربی علاقے لٹاکیا(Latakia) کے علاقے میں قائم ہوائی اڈے کی حفاظت کے لیے 600 فوجیوں پہ مشتمل ایک دستہ تعینات کیا گیا ہے۔ جب کہ درجنوں کے حساب سے جنگی جہاز پہلے سے ہی موجود ہیں۔ کاروائیوں کے پہلے دن سے ہی امریکہ روس کو ان کاروائیوں کے جواب میں سنگین نتائج کی دھمکی دے چکا ہے لیکن روس اپنی بات پہ قائم ہے کہ شام کیوں کہ روس کا ہم خیال رہا ہے لہذا شام کی حکومت کی مدد کرنا اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ یہ شاید ایک طویل عرصے بعد ہوا ہے کہ دونوں عالمی طاقتیں کھل کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے صف بستہ ہیں۔ پیرس حملوں کے بات فرانس بھی اس جنگ میں کھل کر شامل ہو گیا ہے جب کہ ترکی کی جانب سے روسی طیارہ مار گرائے جانے کے بعد سے اس تمام مسلے نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔
شام کے تنازعے میں دونوں ممالک کے رویوں میں سرد جنگ کے رویوں کا اثر بھی واضح طور پہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک طرف امریکہ کے بقول وہ شدت پسند عناصر کے خلاف کاروائیاں کر رہاہے تو دوسری جانب جانبداری کی مثال قائم کرتے ہوئے وہ بشار الاسد کو جمہوری طریقے سے ہٹانے کے بجائے حکومت مخالف باغیوں کو نہ صرف اسلحہ پہنچا رہا ہے بلکہ ان کی تربیت بھی کر رہا ہے۔ مغربی دنیا روس کی فوجی صلاحیت کے بارے میں گومگو کا شکار رہی ہے اور ایک طویل عرصے بعد روس کو اپنی جنگی صلاحتیں آزمانے کا موقع بھی ملا ہے۔ شدید ترین مخالفت کے باوجود بھی مغربی میڈیا روس کو ایک بدلے ہوئے ملک کے روپ میں دیکھ رہا ہے۔ 14 اکتوبر کی نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس بات میں شبہ نہیں کہ روس ایک دن میں اتنی کاروائیاں کر رہا ہے جتنی امریکی و اتحادی ایک مہینے میں کر پا رہے تھے۔ شام کے تنازعے میں وہ روس نظر آ رہا ہے جس کی بنیادیں پوٹن نے جدیدیت پہ استوار کی ہیں۔ روس اس تمام کاروئی کی بالکل ایسے ہی منظر کشی کر رہا ہے جیسے امریکہ نے 1991 کی خلیج جنگ میں کی تھی۔ اس کے علاوہ اس تنازعے میں جدید اسلحے سے روس نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ دنیا پھر سے کشیر ملکی عالمی نظام دیکھ رہی ہو۔ شام جنگ میں مغربی دنیا کے لیے سب سے زیادہ حیران کن روس کی میزائل ٹیکنالوجی ہے جو 900 میل تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ روس نے اس جنگ میں پہلی دفعہ Sukhoi SU-34 جنگی جہاز بھی استعمال کیے جو اس سے پہلے استعمال نہیں ہوئے اور نیٹو جسے Fullback کے نام سے جانتی تھی ۔ یہ ایک جدید روس کا چہرہ تھا۔
حقیقی معنوں میں روس شام کے تنازعے میں سامنے آ کھڑا ہوا ہے اور امریکہ جو طویل عرصے سے عالمی طاقت واحد سپر پاور کے طور پہ استعمال کر رہا تھااس کے لیے خطرے کی گھنٹی بجی ہے۔ شام میں دو عالمی طاقتوں کا سامنے آ جانا شام کے تنازعے پہ کیا اثر ڈالے گا اس کا فیصلہ تو وقت کرئے گا لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ مستقبل کے عالمی منظر نامے میں فیصلے یقیناًروس کے بناء ممکن نہیں ہو پائیں گے۔ ابھی روس کو مزید کام کرنا ہے لیکن ابھی سے اس نے دنیا پہ اپنی دھاک دوبارہ سے بٹھانا شروع کر دی ہے۔ امریکہ جو حکومت مخالف باغیوں کی مدد کے ساتھ دیگر شدت پسندوں کو بھی اسد حکومت کے خلاف ڈھیل دے رہا تھا روس کی کاروائیوں سے یکسر رخ تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پوٹن نے شاید ٹھیک کہا ہے کہ روس دنیا پہ یہ واضح کرنا چاہتا تھا کہ روس کے پاس نہ صرف جدید اسلحہ موجود ہے بلکہ اس کو استعمال کرنے لیے جدید افرادی قوت بھی موجود ہے۔ اور وقت بتا رہا ہے کہ اس بیان کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔
یہ"زُبانِ اہلِ زمیں"ہے۔قارئین اپنی تجاویز اور آراء کے لئے اس ایڈریس پر مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
ssakmashadi@gmail.com
facebook.com/kazmicolumnist
twitter@ sakmashadi
ssakmashadi@gmail.com
facebook.com/kazmicolumnist
twitter@ sakmashadi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں