ترکی کا ردعمل۔۔۔ تیسری عالمی جنگ ؟
ترکی نے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر روس کا سخوئی طیارہ مار گرایا ہے۔
اور طیارے میں موجود دو پائلٹ باہر نکلنے میں کامیاب رہے ۔ لیکن اطلاعات
یہ ہیں کہ ایک پائلٹ ہلاک ہو چکا ہے جب کہ دوسرا پائلٹ ابھی لاپتہ ہے اور
گمان یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ ترکمان ملیشیا کے پاس ہے۔ اور اس کی
بازیابی یا تلاش کے لیے جانے والے ایک روسی ہیلی کاپٹر کو بھی نشانہ بنایا
گیا ہے اس واقعے میں مزید ایک روسی فوجی ہلاک ہو گیا ہے۔
روس نے جب سے شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف اپنی کاروائیوں کا آغاز کیا تب
سے دنیا ایک نئی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ نیٹو ، امریکہ اور خلیجی
ممالک ایک طرف کھڑے ہیں جب کہ روس، شام ، ایران اور چند دوسرے ممالک ایک
طرف کھڑے ہیں اس سارے معاملے میں چین کا کردار اس وقت خاموش تماشائی کا سا
ہے۔ وہ نہ کھل کر روس کی حمایت کر رہا ہے نہ ہی کھل کر اس کی مخالفت لیکن
اندازے یہی بتا رہے ہیں کہ وقت پڑنے پر چین کا پلڑا یقیناًروس کی طرف ہی
جائے گا۔
ترکی کا دعویٰ یہ ہے کہ روسی جنگی جہاز سخوئی SU-24 دو کلو میٹر سے بھی زیادہ ترکی کی حدود کے اندر آیا جس پہ اسے 10 سے زائد مرتبہ وارننگ بھی دی گئی لیکن واپس نہ جانے پہ ترک فضائیہ کے F-16 نے اسے مار گرایا۔ طیارہ گرنے اور ہوابازوں کے باہر نکلنے کی ویڈیو اس وقت بی بی سی سمیت تمام عالمی نشریاتی ادارے نشر کر چکے ہیں۔ اس حادثے کے بعد ترکی نے جو ریڈار میپ جاری کیا ہے اس میں دکھایا گیا ہے کہ روسی جنگی جہاز ترکی کی فضائی حدود میں سے گزر رہا تھا۔ لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ روسی جنگی جہاز ترکی کے بہت تھوڑے علاقے پہ سے گزر رہا تھا اور ایک جنگی جہاز کے لیے اس علاقے سے باہر جانے کے لیے صرف چند منٹ درکار ہوتے ہیں۔ اور یہ گماں بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ترکی کے لیے روسی جنگی جہاز کوئی خطرہ نہیں تھا۔ روسی جہاز کی پرواز کا مقصدشمالی لاذقیہ میں باغیوں کے خلاف کاروائی تھا۔ حیران کن حقیقت یہ بھی ہے کہ روسی جنگی جہاز نشانہ بننے کے بعد شام کی حدود میں ہی گرا یعنی وہ سرحدی علاقے میں ہی محو پرواز تھا اگر وہ ترکی کی فضائی حدود میں چند کلومیٹر اندر ہوتا جیسا ترکی نے بیان کیا ہے تو یقیناًاسے گرنا بھی ترکی میں ہیں چاہیے تھا۔ جب کہ ایک پائلٹ کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ ترکمان ملیثیا کی گرفت میں ہے(مصدقہ ذرائع سے تصدیق ہونا ابھی باقی ہے)۔ اور یہ ملیشیا بھی شامی علاقوں میں اپنی کاروئیاں جاری رکھے ہوئے ہے ظاہری بات ہے جہاز سے کچھ ہی فاصلے پہ یہ پائلٹ بھی گرا ہو گا۔ جو شام کی حدود میں گرا۔
بے شک روسی جہاز ترکی کی فضائی حدود میں بھی تھا تو کیا ترکی کا اس درجہ ردعمل موجودہ حالات کے تناظر میں ضروری تھا؟ یہ ایک ایسی بحث ہے جو اس وقت توجہ حاصل کیے ہوئے ہے۔ عیسائیوں کے روحانی پیشوا نے فرانس پہ حملوں کے بعد اسے تیسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری طرف شام میں دو عالمی اتحاد بنتے نظر آرہے ہیں۔ ایک طرف روس ہے جو ماضی میں سپر پاور رہ چکا ہے اور جدیدیت کی راہ پہ دوبارہ سے گامزن ہے۔ شکست و ریخت کے باوجود امریکہ سمیت باقی عالمی دنیا اس سے محاذ آرائی کی نہ ہمت کر پائی نہ کر سکتی ہے کیوں کہ روس ایک ایسی طاقت ہے جو دوبارہ سے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کافی حد تک بحال کر چکا ہے ۔ اس کے علاوہ یوکرین میں عمل دخل، کریمیا کی روس میں شمولیت نے بھی اس کو دوام بخشا ہے۔ توانائی کے ذخائر اس کا عمل دخل عالمی دنیا میں مزید مضبوط بناتے ہیں۔
پہلا عالمی اتحاد امریکہ ، سعودی عرب ، نیٹو ممالک اور دیگر خلیجی ممالک پہ مشتمل ہے جو اس وقت تک ایک مضبوط اتحاد ہے۔ جب کے دوسری جانب روس کو صرف ایران کی مدد حاصل ہے لیکن چین کی خاموش حمایت بھی اس کے پلڑے میں ہے۔ اس کے علاوہ ایران کا حالیہ دورہ اور اردن کی قیادت سے ملاقاتیں بھی نئے منظر نامے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
ایک دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ شام تمام عالمی طاقتوں کے لیے اس وقت ایک ٹیسٹ کیس بنا ہوا ہے ہر ایک کے مفادات الگ ہیں۔ امریکہ باغیوں کے خاتمے سے زیادہ بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔ سعودی عرب کی دلچسپی صرف فقہی لحاظ سے تبدیلی میں پنہاں ہے۔ نیٹو ممالک کی دلچسپی صرف امریکہ کا ساتھ دینے کے حوالے سے ہے۔ ترکی ترکمان ملیشیا کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے اور اس باغی گروپ کے خلاف روس کی کاروائیوں سے روس کے ساتھ نالاں بھی ہے۔ ترکی کے بارے میں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ بشار الاسد کی مخالفت کے بعد فری سیرین آرمی کی تربیت بھی ترک علاقوں میں کی گئی ۔ جب کہ روس پچھلے ایک ماہ سے زائد کے عرصے میں ترکمان ملیشیا جنہیں ترکی کی حمایت حاصل ہے کے خلاف متعدد کاروائیاں کر چکا ہے۔ جو ترکی کے لیے قابل قبول نہیں ہے اس لیے ایک چھوٹے سے علاقے میں ان کے جہاز کے داخلے پر ہی مار گرایا گیا یا یوں کہہ لیں کہ ترکی نے اپنا غصہ نکالا ہے۔ ترکی کو نیٹو کی چھتری حاصل ہے۔ شاید اسی وجہ سے اتنا شدید قدم اٹھایا گیا حالانکہ روسی جہاز نہ تو ترکی کے لیے خطرہ تھا نہ خطرہ بن سکتا تھا۔اگر روسی جہاز نقصان کا باعث نہیں تھا ترکی کے لیے تو تھوڑی سی برداشت معاملات کو کسی اور نہج پے لے جا سکتی تھی۔
موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو دنیا ایک ان دیکھی جنگ کے اندر دھنستی جا رہی ہے اور ترکی کے تازہ ترین اقدامات سے آگ ٹھنڈی ہونے کے بجائے مزید بڑھک اٹھی ہے۔ اب اس میں فرانس بھی مکمل شدت سے کود پڑا ہے۔ روس کا کہنا رہا ہے کہ امریکہ باغیوں اور داعش کے خلاف کاروائیوں کے بجائے صرف بشار حکومت کے خلاف کاروائیاں کر رہا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے۔
روس ہو یا امریکہ ، فرانس ہو یا ترکی سب اپنے اپنے مفادات کے لیے لڑ رہے ہیں۔ یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ ان تمام فریقین میں سے کسی کو شامی عوام کے ساتھ کوئی خصوصی ہمدردی ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اسلامی دنیا بھی اس وقت کسی نہ کسی بلاک کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ ایران روس کے ساتھ ہے تو سعودی عرب کھل کر امریکہ کا ساتھ دے رہا ہے۔ اگر بشار الاسد کا اندازِ حکمرانی اتنا ہی عوام میں غیر مقبول اور ناپسندیدہ ہے تو کیا وہ حسنی مبارک سے بھی زیادہ مضبوط ہے کہ اس کے خلاف فوجی کاروائی کے علاوہ کوئی بھی حل قابل عمل نہیں ہے؟ کیا کوئی ایسا طریقہ عالمی دنیا میں موجود نہیں کہ سیاسی طورسے بشار الاسد کو اس بات پہ مجبور کیا جا سکے کہ وہ شامی عوام کو فیصلے کا اختیار دے ۔ ایسا اختیار جس میں ان کو یہ فیصلہ کرنے کی آزادی ہو کہ چاہے وہ بشار الاسد کو منتخب کریں یا کسی نئی جماعت کو۔ لیکن مغربی طاقتیں ہمیشہ سے عوامی طاقت سے خائف بھی رہی ہیں۔ انہیں یہ ڈر بھی ہے کہ بشار الاسد کے قائم رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ عوام میں کچھ نہ کچھ اثر ضرور رکھتے ہیں اور ایسا نہ ہو کہ عوام کے پاس اختیار جانے سے وہ دوبارہ اقتدار حاصل کر لیں۔
عالمی طاقتوں کی باہمی چپقلش اور ان کے مفادات نے اس وقت پوری دنیا کو
حقیقی معنوں میں تیسری عالمی جنگ کے دہانے پہ دھکیل دیا ہے ترکی کے اقدامات
نے مزید اس آگ میں جلتی پہ تیل کا سا کام کیا ہے۔ اس پورے قصے میں کیوں کہ
نقصان صرف مسلم امہ کا ہو رہا ہے اس لیے تمام عالمی طاقتیں فوجی طاقت ہی
آزما رہی ہیں اگر معاملہ کسی چھوٹے سے مغربی ملک کا ہوتا تو اب تک تمام
فریقین مذاکرات کی میز پہ جمع ہوتے اور اقوام متحدہ بھی اپنا کردار ادا کر
رہا ہوتا۔ لیکن اس وقت اقوام متحدہ، خلیج تعاون کونسل سمیت تمام متعلقہ
ادارے ایک فریق بنے ہوئے ہیں کیو ں کہ مرنے والا بھی مسلمان ہے شہید ہونے
والا بھی مسلمان، باغی بھی مسلمان ہے تو حکومت بھی مسلمان ۔ لہذا عالمی
برادری کو خاموشی بہتر لگ رہی ہے کیوں کہ نقصان مسلمانوں کا ہو رہا ہے۔
یہ"زُبانِ اہلِ زمیں"ہے۔قارئین اپنی تجاویز اور آراء کے لئے اس ایڈریس پر مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
facebook.com/kazmicolumnist
twitter@ sakmashadi
ترکی کا دعویٰ یہ ہے کہ روسی جنگی جہاز سخوئی SU-24 دو کلو میٹر سے بھی زیادہ ترکی کی حدود کے اندر آیا جس پہ اسے 10 سے زائد مرتبہ وارننگ بھی دی گئی لیکن واپس نہ جانے پہ ترک فضائیہ کے F-16 نے اسے مار گرایا۔ طیارہ گرنے اور ہوابازوں کے باہر نکلنے کی ویڈیو اس وقت بی بی سی سمیت تمام عالمی نشریاتی ادارے نشر کر چکے ہیں۔ اس حادثے کے بعد ترکی نے جو ریڈار میپ جاری کیا ہے اس میں دکھایا گیا ہے کہ روسی جنگی جہاز ترکی کی فضائی حدود میں سے گزر رہا تھا۔ لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ روسی جنگی جہاز ترکی کے بہت تھوڑے علاقے پہ سے گزر رہا تھا اور ایک جنگی جہاز کے لیے اس علاقے سے باہر جانے کے لیے صرف چند منٹ درکار ہوتے ہیں۔ اور یہ گماں بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ترکی کے لیے روسی جنگی جہاز کوئی خطرہ نہیں تھا۔ روسی جہاز کی پرواز کا مقصدشمالی لاذقیہ میں باغیوں کے خلاف کاروائی تھا۔ حیران کن حقیقت یہ بھی ہے کہ روسی جنگی جہاز نشانہ بننے کے بعد شام کی حدود میں ہی گرا یعنی وہ سرحدی علاقے میں ہی محو پرواز تھا اگر وہ ترکی کی فضائی حدود میں چند کلومیٹر اندر ہوتا جیسا ترکی نے بیان کیا ہے تو یقیناًاسے گرنا بھی ترکی میں ہیں چاہیے تھا۔ جب کہ ایک پائلٹ کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ ترکمان ملیثیا کی گرفت میں ہے(مصدقہ ذرائع سے تصدیق ہونا ابھی باقی ہے)۔ اور یہ ملیشیا بھی شامی علاقوں میں اپنی کاروئیاں جاری رکھے ہوئے ہے ظاہری بات ہے جہاز سے کچھ ہی فاصلے پہ یہ پائلٹ بھی گرا ہو گا۔ جو شام کی حدود میں گرا۔
بے شک روسی جہاز ترکی کی فضائی حدود میں بھی تھا تو کیا ترکی کا اس درجہ ردعمل موجودہ حالات کے تناظر میں ضروری تھا؟ یہ ایک ایسی بحث ہے جو اس وقت توجہ حاصل کیے ہوئے ہے۔ عیسائیوں کے روحانی پیشوا نے فرانس پہ حملوں کے بعد اسے تیسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری طرف شام میں دو عالمی اتحاد بنتے نظر آرہے ہیں۔ ایک طرف روس ہے جو ماضی میں سپر پاور رہ چکا ہے اور جدیدیت کی راہ پہ دوبارہ سے گامزن ہے۔ شکست و ریخت کے باوجود امریکہ سمیت باقی عالمی دنیا اس سے محاذ آرائی کی نہ ہمت کر پائی نہ کر سکتی ہے کیوں کہ روس ایک ایسی طاقت ہے جو دوبارہ سے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کافی حد تک بحال کر چکا ہے ۔ اس کے علاوہ یوکرین میں عمل دخل، کریمیا کی روس میں شمولیت نے بھی اس کو دوام بخشا ہے۔ توانائی کے ذخائر اس کا عمل دخل عالمی دنیا میں مزید مضبوط بناتے ہیں۔
پہلا عالمی اتحاد امریکہ ، سعودی عرب ، نیٹو ممالک اور دیگر خلیجی ممالک پہ مشتمل ہے جو اس وقت تک ایک مضبوط اتحاد ہے۔ جب کے دوسری جانب روس کو صرف ایران کی مدد حاصل ہے لیکن چین کی خاموش حمایت بھی اس کے پلڑے میں ہے۔ اس کے علاوہ ایران کا حالیہ دورہ اور اردن کی قیادت سے ملاقاتیں بھی نئے منظر نامے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
ایک دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ شام تمام عالمی طاقتوں کے لیے اس وقت ایک ٹیسٹ کیس بنا ہوا ہے ہر ایک کے مفادات الگ ہیں۔ امریکہ باغیوں کے خاتمے سے زیادہ بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔ سعودی عرب کی دلچسپی صرف فقہی لحاظ سے تبدیلی میں پنہاں ہے۔ نیٹو ممالک کی دلچسپی صرف امریکہ کا ساتھ دینے کے حوالے سے ہے۔ ترکی ترکمان ملیشیا کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے اور اس باغی گروپ کے خلاف روس کی کاروائیوں سے روس کے ساتھ نالاں بھی ہے۔ ترکی کے بارے میں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ بشار الاسد کی مخالفت کے بعد فری سیرین آرمی کی تربیت بھی ترک علاقوں میں کی گئی ۔ جب کہ روس پچھلے ایک ماہ سے زائد کے عرصے میں ترکمان ملیشیا جنہیں ترکی کی حمایت حاصل ہے کے خلاف متعدد کاروائیاں کر چکا ہے۔ جو ترکی کے لیے قابل قبول نہیں ہے اس لیے ایک چھوٹے سے علاقے میں ان کے جہاز کے داخلے پر ہی مار گرایا گیا یا یوں کہہ لیں کہ ترکی نے اپنا غصہ نکالا ہے۔ ترکی کو نیٹو کی چھتری حاصل ہے۔ شاید اسی وجہ سے اتنا شدید قدم اٹھایا گیا حالانکہ روسی جہاز نہ تو ترکی کے لیے خطرہ تھا نہ خطرہ بن سکتا تھا۔اگر روسی جہاز نقصان کا باعث نہیں تھا ترکی کے لیے تو تھوڑی سی برداشت معاملات کو کسی اور نہج پے لے جا سکتی تھی۔
موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو دنیا ایک ان دیکھی جنگ کے اندر دھنستی جا رہی ہے اور ترکی کے تازہ ترین اقدامات سے آگ ٹھنڈی ہونے کے بجائے مزید بڑھک اٹھی ہے۔ اب اس میں فرانس بھی مکمل شدت سے کود پڑا ہے۔ روس کا کہنا رہا ہے کہ امریکہ باغیوں اور داعش کے خلاف کاروائیوں کے بجائے صرف بشار حکومت کے خلاف کاروائیاں کر رہا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے۔
روس ہو یا امریکہ ، فرانس ہو یا ترکی سب اپنے اپنے مفادات کے لیے لڑ رہے ہیں۔ یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ ان تمام فریقین میں سے کسی کو شامی عوام کے ساتھ کوئی خصوصی ہمدردی ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اسلامی دنیا بھی اس وقت کسی نہ کسی بلاک کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ ایران روس کے ساتھ ہے تو سعودی عرب کھل کر امریکہ کا ساتھ دے رہا ہے۔ اگر بشار الاسد کا اندازِ حکمرانی اتنا ہی عوام میں غیر مقبول اور ناپسندیدہ ہے تو کیا وہ حسنی مبارک سے بھی زیادہ مضبوط ہے کہ اس کے خلاف فوجی کاروائی کے علاوہ کوئی بھی حل قابل عمل نہیں ہے؟ کیا کوئی ایسا طریقہ عالمی دنیا میں موجود نہیں کہ سیاسی طورسے بشار الاسد کو اس بات پہ مجبور کیا جا سکے کہ وہ شامی عوام کو فیصلے کا اختیار دے ۔ ایسا اختیار جس میں ان کو یہ فیصلہ کرنے کی آزادی ہو کہ چاہے وہ بشار الاسد کو منتخب کریں یا کسی نئی جماعت کو۔ لیکن مغربی طاقتیں ہمیشہ سے عوامی طاقت سے خائف بھی رہی ہیں۔ انہیں یہ ڈر بھی ہے کہ بشار الاسد کے قائم رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ عوام میں کچھ نہ کچھ اثر ضرور رکھتے ہیں اور ایسا نہ ہو کہ عوام کے پاس اختیار جانے سے وہ دوبارہ اقتدار حاصل کر لیں۔
یہ"زُبانِ اہلِ زمیں"ہے۔قارئین اپنی تجاویز اور آراء کے لئے اس ایڈریس پر مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
facebook.com/kazmicolumnist
twitter@ sakmashadi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں