<p align="justify><font face="jameel noori nastaleeq" size="4>دیوار مہربانی کی ابتداء کے حوالے سے ایران کا نام عالمی میڈیا کے حوالوں سے سامنے آتا ہے (لفظ دیوار مہربانی بھی فارسی زبان کا ہی لفظ ہے جسے اردو میں دیوار مہربانی تحریر کیا جاتا ہے)۔ اس کی ابتداء ایران کے شہر مشہد سے ہوئی، جہاں لوگوں نے بے گھر افراد کیلئے ضرورت سے زائد کپڑے مخصوص دیوار پر لٹکانا شروع کردیئے، اس کی بڑی وجہ عالمی میڈیا کے مطابق یہ تھی کہ ایران میں شدید سردی کا موسم ہوتا ہے، اس کے علاوہ سرکاری اندازوں کے مطابق وہاں 15 ہزار سے زائد بے گھر افراد ہیں (جب کہ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف تہران میں ہی یہ تعداد 15 ہزار سے زائد ہے جبکہ پورے ملک میں کئی گنا زیادہ ہے)۔ بنیادی طور پر سردی سے بچاؤ کیلئے گرم کپڑے رکھنے سے ابتداء ہوئی جو جلد پورے ایران میں پھیل گئی، اس کے بعد ضرورت مندوں کیلئے کھانے کی اشیاء تقسیم کرنے کیلئے بھی مختلف مقامات پر فریج، اور نادار طالبعلموں کیلئے کتابیں رکھنے کے مراکز بھی بنتے گئے۔
پاکستان میں بھی کچھ طالبعلموں نے دیوار مہربانی کی بنیاد رکھی تو ان کے اس قدم کو ناصرف سراہا گیا بلکہ پورے ملک میں تقلید بھی کی گئی مگر کیوں کہ ہمارے ہاں صرف وقتی جوش و جذبہ ہوتا ہے اس لئے یہ تقلید بھی عارضی ہی ثابت ہوئی، راقم نے صرف ایک شہر کا جائزہ لیا تو 4 مقامات پر دیوار مہربانی قائم کی گئی تھی اور چاروں کا حال یہ تھا کہ کپڑے دھول اور مٹی سے اٹے ہوئے اور ناقابل استعمال ہیں، کیوں کہ دیواریں بنانے کی جلدی میں مناسب انتظامات نہیں کئے گئے، سونے پہ سہاگہ، ایدھی صاحب جیسے باہمت انسان کی وفات کے بعد بھی ان کے نام سے دیوار ایدھی وجود میں آنا شروع ہو گئیں، مگر یہ بھی وقتی ابال ثابت ہوا اور ایدھی صاحب کے نام سے منصوب دیوار اور اس کے ساتھ لگا پانی کا کولر دونوں ناقابل استعمال ہو چکے ہیں۔
دیواروں کو رنگ روغن کر کے اقوال زریں لکھنے پر توجہ دی گئی، مستقبل بنیادوں پر ان کو کارآمد بنانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی، آئیڈیا کاپی کرنے میں تو ہم ویسے بھی ماہر ہیں، مگر آئیڈیے کو تکمیل دینے میں ہمیشہ کی طرح ہم نااہل واقع ہوئے ہیں، ایک دیوار مہربانی عین شاہراہ کے درمیان بنائی گئی تھی، جس کے اوپر کسی" ضرورت مند" نے اپنے کاروبار کا بینر چسپاں کردیا ہے کہ اُس کی ضرورت یقیناً بڑی تھی اور ایک دیوار مہربانی جو کسی کے گھر کی دیوار کے ساتھ بناء اجازت بنائی گئی تھی اس بے چارے نے خود سفیدی پھیردی۔
دیوارِ مہربانی جن لوگوں کا آئیڈیا تھا (ایرانیوں کا) انہوں نے اس کو تشہیر کے بجائے حقیقی معنوں میں ضرورت مندوں کی مدد کیلئے قائم کیا اور آج بھی ایران کے بیشتر شہروں میں ناصرف دیوار مہربانی کا آئیڈیا کامیابی سے جاری ہے بلکہ دیگر کئی شہروں میں فالتو کتابیں رکھنے اور فریج میں کھانے کی اضافی اشیاء رکھنے کی روایت بھی مضبوط ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ آئیڈیا چین اور دیگر ممالک میں بھی کامیابی سے چلایا جارہا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ اس آئیڈیے کو وقتی ابال کے بجائے مستقل بنیادوں پر چلا رہے ہیں۔
جہاں بھی دیوار مہربانی بنی ہے اس کی باقاعدہ دیکھ بھال کی جاتی ہے، صفائی کا معقول بندوبست ہے اور اس میں اشیاء رکھنے اور اشیاء لے جانے والے اس کی دیکھ بھال اپنا فرض سمجھ کر کرتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں ایک دفعہ بس جوش میں دیوار پر رنگ پھیر دیا، ہینگر اور اس پر پھٹے پرانے کپڑے لٹکائے اور اللہ اللہ خیر صلا۔ اس کے بعد کچھ خبر نہیں کہ اس مہم کا کیا ہوا اور اب وہ دیوار کس حال میں ہے۔
جہاں سے اس خیال کی بنیاد پڑی وہ ضرورت سے زیادہ کار آمد اشیاء وہاں رکھتے ہیں اور ہمارے ہاں جو چیز بھی قابل استعمال نہیں رہی وہ اس دیوار کی زینت بننا شروع ہوگئی، آئیڈیا بے شک کاپی کیجئے مگر اس کو کاپی کرنے کے بعد توجہ بھی دیجئے۔ صرف وقتی جوش و جذبے کے ساتھ کوئی آئیڈیا ہرگز کاپی نہ کیجئے، کہ یہ تو سراسر اس آئیڈیے کی ہی توہین ہوگی کہ آئیڈیا آیا آپ کو بھی اس کا بخار چڑھا اور چند دن میں ہی اتر گیا۔
</font></p>
(یہ آرٹیکل سما پہ شائع ہو چکاہے لنک کے لیے سما لوگو پہ کلک کریں)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں