جمعرات، 21 جنوری، 2016

ہم کیا کریں۔۔۔؟

پاکستان کی ثالثی کی کوششیں کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ جو تاثر دیا جا رہا تھا کہ پاکستان بطور ثالث کردار اس لیے بھی ادا نہیں کر سکتا کہ اندرونی حالت تسلی بخش نہیں زائل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اندرونی طور پر خلفشار کا شکار ہے ۔ سانحہ چارسدہ کی وجہ سے حالات مزید افسوس ناک ہو چکے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ذمہ دار ایٹمی قوت ہے۔ اور دنیا کی چند بہترین افواج میں سے ایک فوج پاکستان کے پاس ہے جس کی قابلیت پہ کسی کو شک نہیں ہے۔ پاکستان کی ثالثی پہ شکوک پیدا کرنے والے شاید یہ حقیقت نظر انداز کر دیتے ہیں کہ سانحہ 9/11 یا پھر حالیہ دہشت گردی کے واقعے کے بعد کیا امریکہ نے پوری دنیا میں خود کو سپر پاور گرداننا چھوڑ دیا ہے؟ دہشت گردی کے واقعات بطور ریاست ملک کی کمزوری تو ظاہر کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز بھی نہیں ہوتا کہ اس ملک میں مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ہے۔ اور وہ کسی عالمی تنازعے میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بھی نہیں رہا۔
وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف آف پاکستان کے حالیہ دوروں کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیااور بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ لیکن جو افسوس ناک پہلو یہ کالم لکھنے کی وجہ بنا وہ یہ ہے کہ ان دوروں کے دوران صحافتی معیار حالات سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ صحافت کا ایک طالبعلم ہونے کے ناطے حالات سے آگاہی کے لیے حسب معمول دو مشہور کالم نگاروں کے لفظوں پہ نگاہ گئی ۔ ایسے کالم نگار و صحافی جو نوجوان صحافیوں کے لیے ادارے کا درجہ رکھتے ہیں۔ ایک صحافی بزرگ ، باریش اور صحافت کے بابا کے طور پہ جانے جاتے ہیں تو ایک صحافی اپنے کہانی کے اسلوب کی وجہ سے کالم نگاری میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔ (ویسے ان دوروں کے دوران وہ کہانیوں کے بجائے سیلفیوں کی وجہ سے میڈیا کی زینت ہیں)۔ دونوں کے کالم کیوں کہ عوامی رائے پہ اثر ڈالتے ہیں اس لیے دونوں صاحبان کا ایک مخصوص زاویے پہ لکھنا زیادہ محسوس ہوا۔ لکھا گیا"ایرانیوں نے کبھی عربوں کا غلبہ کبھی دل سے قبول نہیں کیا"۔موجودہ شام کی صورت حال اور عراق کی خانہ جنگی کو بھی ایک مخصوص تناظر میں پیش کیا گیا۔ جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے حالیہ ایران و حجاز تنازعے میں قصور صرف ایک فریق کے پلڑے میں آ رہا ہے۔ بے شک مزید آگے جا کر بابائے کالم نگاری تحریر کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا پہ پہلے ہی ایک مہم سی چل رہی ہے۔ احتیاط لازم ہے۔ عرض صرف اتنی سی ہے کہ ایک سینئر کالم نگار کو جب اس بات کا بھی احساس ہے کہ احتیاط لازم ہے تو پھر ان کو اپنے الفاظ میں بھی تو یقیناًاحتیاط سے کام لینا چاہیے۔ یا پھر احتیاط کی ہدایت صرف طفلِ مکتب صحافیوں اور لکھاریوں کے لیے ہے؟
حالیہ دوروں کے دوران وفد میں شامل سینئر تجزیہ کار، صحافی ، کالم نگار ان دوروں کے دوران ہونے والی مثبت پیش رفت پر بحث کے بجائے اس بحث میں الجھے نظر آئے کہ دونوں اسلامی ممالک میں آؤ بھگت کا فرق نمایا ں ہے۔ ایک ملک میں اگر ریڈ کارپٹ بچھا تھا تو دوسرے میں کیوں نہیں بچھا تھا۔ ایک ملک میں محل میں آؤ بھگت کی گئی تو دوسرے ملک میں محل سے کم جگہ پہ کیوں کی گئی ۔ ایک ملک میں سربراہ تک صحافی کو براہ راست رسائی ملی تو تعریفوں کے پل باندھ دیے گئے۔ جب کہ دوسرے ملک میں اگر صحافی کو سربراہوں کی بات چیت تک رسائی نہ دی گئی تو یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے یہ آدابِ سفارت کاری کے خلاف تھا۔ ایک ملک میں سربراہوں کے ساتھ سیلفیوں کا موقع مل گیا تو وہ باعث عزت ٹھہرے ۔ ایک ملک میں اگر سیلفیوں کے بجائے صحافیوں کو اندر نہیں جانے دیا گیا تو معتوب ٹھہرے۔
کیا اچھی صحافت کے یہی معیار ہیں کہ سہولیات سے یہ اندازہ لگایا جائے کہ کون سا ملک سفارت کاری کے آداب بہتر طور پہ نبھا رہا ہے؟ کیا بہت سے ایسے طالبعلم جو صحافت کے میدان میں کودنے کو تیار بیٹھے ہیں وہ یہ سمجھیں کہ اگر ایک ملک میں انواع و اقسام کے کھانے کو ملیں اور دوسرے ملک میں ایک دو ڈشز کم ہو جائیں تو اپنے لفظوں میں دوسرے ملک کی خوب آؤ بھگت کی جائے؟ یہی اگر آدابِ صحافت ہے تو مجھے خدشہ ہے کہ بہت سے ایسے طالبعلم جو ابھی صحافت کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ اپنا وجود عملی میدان میں قائم نہیں رکھ پائیں گے۔ کیوں کہ وہ تو زمانہ طالبعلمی سے ہی ان صحافت کے بڑے ناموں کی تقلید شروع کر دیتے ہیں ۔ اور یہ بڑے نام ہی اپنے لفظوں میں واضح طور پر جانبداری کا تاثر دینا شروع کر دیں تو ایک عام لکھنے والا کہاں جائے گا۔
سنتے آئے ہیں کہ صحافی حضرات بھی کسی نہ کسی مخصوص سوچ، فکر، یا جماعت کی نمائندگی کو اپنا شعار اب بناتے جا رہے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ صحافت کا اعلیٰ معیار قائم رکھنے کے لیے بھی اپنی وابستگیوں میں ایک توازن قائم رکھنا نہایت اہم ہے۔ متوازن الفاظ ہی نئے لکھنے والوں کے لیے ایک روشن راہ متعین کر سکتے ہیں۔ اگر صحافت کے گرو ہی اپنی تحریروں میں حمایت و مخالفت کا تاثر دینا شروع کر دیں گے تو میرے جیسے طالبعلم جو ابھی قلم پکڑنا سیکھ رہے ہیں۔ وہ یہی واویلا کرتے نظر آئیں گے کہ " ہم کہاں جائیں"ْ۔


بلاگر کے آفیشل پیج کے لیے کلک کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں