جمعرات، 21 جنوری، 2016

عامر۔۔۔ سنبھلنا


محمد عامر ایک مرتبہ پھر سے گرین شرٹ پہنے میدان میں اترنے کو بے تاب ہیں۔ میں پہلے دن سے اس حق میں ہوں کہ غلطی تسلیم کرنے کے بعد عامر کو ایک اور موقع دیا جانا چاہیے تھا۔ اس حوالے سے ایک کالم اکتوبر 2011کوتحریر کیا "جرم یا غلطی" کے نام سے ۔جس پر شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا اور کچھ موسمی دانشوروں نے تو میری حب الوطنی تک کو شکوک میں لپیٹ دیا کہ میں ایک ایسے کھلاڑی کے حق میں لکھ بیٹھا جو پاکستان کا نام بدنام کر چکا ہے۔ لیکن اس وقت بھی نقطہ ء نظر یہی تھا اور آج بھی یہی ہے کہ اولاً پاکستان میں کھلاڑیوں کی راہنمائی اور ذہنی پختگی کا کوئی نظام نہیں ہے۔ دوئم جب ایک انسان جرم بھی کرئے تو معاشرہ سزا کے بعد اسے قبول کرنے پر معاشرتی طور پر مجبور ہوتا ہے تو پھر جب ایک انسان غلطی کا اعتراف بھی کرئے تو پھر کیسے اس کی غلطی کو جرم کا درجہ دے کر اس پہ کھیلوں کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کیے جا سکتے ہیں۔ قتل کا مجرم بھی بعد از معافی پھندے سے بچ جاتا ہے۔
آج عامر زندگی کی 23 بہاریں دیکھ چکا ہے۔ جب اگست 2010 میں وہ اسپاٹ فکسنگ سکینڈل کا شکار بنا تو اس وقت اس کی عمر بردباری کی حدود سے کوسوں دور تھی۔نوجوانی میں شہرت کی بلندی پہ پہنچنے کی وجہ سے اس کے قدم ڈگمگا گئے۔ اور پھر اس نے اپنی غلطی بھی تسلیم کی۔ مجھے آج بھی عامر کی معافی کے الفاظ یاد ہیں کہ" میں پاکستان میں سب سے معافی مانگتا ہوں اور ان سے بھی جن کے لیے کرکٹ اہم ہے"۔
آج محمد عامر نیوزی لینڈ کی سرزمین پہ قدم رکھ چکے ہیں نیوزی لینڈ جانے سے پہلے بھی عامر کو پہاڑ سر کرنا پڑے۔ اظہر علی اور حفیظ کو اپنے حق میں منانا پڑا ان سے معافی بھی مانگی۔ اس کے علاوہ دوسرا سب سے اہم مرحلہ یہ تھا کہ اسے اپنی پرفارمنس سے ثابت کرنا تھا کہ وہ دوبارہ سے قومی ٹیم میں جگہ بنانے کا اہل ہے۔ بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں اس کی پرفارمنس نے ناقدین کو حیران کر دیا کہ کیسے ایک شخص پانچ سال کھیل سے دور رہ کر بھی وہی پرانی فارم واپس حاصل کر سکتا ہے۔عامر نے بی پی ایل میں14 وکٹیں حاصل کیں۔اس کے علاوہ مثبت طور پہ خاموش کرکٹر نظر آیا اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس پہ اس وقت شدید دباؤ بھی ہے کہ وہ ایک نیا آغاز کرنے جا رہا ہے۔ نیوزی لینڈ کا دورہ عامر کے لیے ایک طرح سے اس کے کرکٹ کیرئیر کا آغاز کہا جائے تو بے جا نہ گا کیوں کہ جس طرح کی ٹھوکر عامر نے کھائی ہے تاریخ گواہ ہے کہ ایسی ٹھوکر کے بعد کم لوگ ہی سنبھل پاتے ہیں۔نیوزی لینڈ کے باؤلنگ کوچ " دمتری مسکرہینس" (Dimitri Mascarenhas) سے جب عامر کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو ان کا جواب نہایت ہی دانشمندانہ تھا کہ وہ عامر کے حوالے سے کسی غیر ضروری بحث میں الجھنے کے بجائے اس کی باؤلنگ سے نمٹنے کا سوچ رہے ہیں۔
چھ ماہ کی قید سے لے کر دوبارہ سے پاکستان کی قومی ٹیم میں شامل ہونے تک محمد عامر نہ صرف شہہ سرخیوں میں رہے ہیں بلکہ بے پناہ مشکلات کا سامنا بھی رہا ہے۔ وہ چاہے اظہر اور حفیظ کے موقف کی صورت میں ہوں یا پھر ویزہ حاصل کرنے کے حوالے سے ، مغربی میڈیا کا خوف ہو یا میدان میں تماشائیوں کی جانب سے فقرے کسنے کا عمل، ان تمام مشکلات کے باجوود عامر کے پاس سوائے اپنی پرفارمنس کے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے جس سے وہ اپنے ناقدین کی توپوں کے دہانے موڑ پائیں۔ صرف اپنی باؤلنگ سے ہی وہ مغربی میڈیا کو یارکر مار سکتے ہیں اور کرکٹ مبصرین کی رائے اپنے بارے میں ہموار کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ محمد عامر کو اپنی پرفارمنس کے ساتھ ساتھ اپنے رویے سے بھی لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا ہو گا۔یہ امر بھی ذہن نشین لازم بہر حال رکھنا ہو گاعامر کو کہ اگر ان کو عالمی میڈیا یا تماشائیوں کی طرف سے کسی تنقیدی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس میں نہ ہی قصور میڈیا کا ہے نہ ہی تماشائیوں کا یہ ان کی اپنی ایک غلطی تھی جس کو اپنے دامن سے الگ کرنا ہے انہوں نے۔اس حقیقت میں ہرگز دو رائے نہیں کہ جمعہ کے دن ایڈن پارک میں محمد عامر کو ایک بڑی آزمائش کا سامنا ہے اگر وہ اس آزمائش سے سنبھلنے میں کامیاب رہے تو دنیا ان کو ایک کھلاڑی کے روپ میں قبول کرنے میں بھی ہرگز تامل سے کام نہیں لے گی۔محمد عامر کسی یقیناًاب خود سمجھدار ہیں لہذا اتنا کہنا ہی مناسب رہے گا کہ " عامر۔۔۔ سنبھلنا"۔


بلاگر کے آفیشل پیج کے لیے کلک کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں